شکریہ سردار اختر مینگل؟
نودشنز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں آج انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں آسمان کو چھو رہے ہیں، فوجی آپریشن، گھروں کی لوٹ مار، گھروں کو جلانا اور سب سے بڑی بات ماؤرائے قانون لوگوں کو حراست میں لے کر لاپتہ کرنا۔ اور جو لاپتہ بلوچوں کا معاملہ ہے وہ انسانی المیے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
روایتاً سیاسی پارٹیاں (پارلیمانی پارٹیاں) ہر کوئی اپنے اپنے سیاست کو چمکانے کے خاطر مسنگ پرسنز کے معاملے کو اپنی اپنی طرح پیش کر رہا ہے اور جب سے سردار اختر مینگل نے جاکر پارلیمنٹ میں چھ نکات پیش کیئے ہیں اور مسنگ پرسنز کے معاملے کو اٹھایا ہے، تو بی این پی کے کارکنوں اور ورکروں کا سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہی ختم ہوچکی ہے اور وہ جہالت پہ اترچکے ہیں اور جب جہالت انتہا کو پہنچ جائے، بولنے والا نہیں جانتا میں کیا کہہ رہا ہوں اور سننے والا نہیں جانتا میں کیا سن رہا ہوں۔
پچھلے کئی وقتوں سے جب کوئی لاپتہ شخص بازیاب ہوجاتا ہے، بی این پی کے کارکنان اور خاص طورپر بی این پی کے سوشل میڈیا ایکٹویسٹوں کی جانب سے انسان کو عجیب سا تاثر ملتا ہے، خاص کر بی این پی مینگل کے ورکروں کے رویے سے بار بار ذہن میں کئی سوالات ابھرتے ہیں۔ لوگوں کے بازیاب ہونے پہ کس لئے اختر مینگل کا شکریہ لکھ کر سوشل میڈیا پہ پوسٹ کردیتے ہیں، کیسا شکریہ؟ کس لیئے شکریہ؟ اختر مینگل جانتا ہے، ان لوگوں کو کون اور کس لئے اٹھا رہا ہے؟ اور کیوں اٹھا رہا ہے؟اور اس بات سے آج پوری دنیا واقف ہے کہ ان لوگوں کون اٹھا رہا ہے اور کیوں۔ آج جس پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اختر مینگل اس ریاست کی سلامتی اور جمہوریت کی بحالی کے لئے چیخ چیخ کر باتیں کر رہا ہے انہیںں وہی ریاست اٹھا رہا ہے پھر کس لیئے شکریہ اختر مینگل؟
اگر شکریہ ادا کرنا ہے، پھر سیما سمیت ان تمام ماؤں اور بہنوں کی تپتی دھوپ اور یخ بستہ سردی میں بیٹھ کر احتجاج کرنے کا ذمہ دار بھی سردار اختر مینگل ہے کیوں کہ ان لوگوں کے پیاروں کو اسی ریاست نے اٹھایا ہے، جس کی سلامتی کا حلف اختر مینگل نے اٹھایا ہے، پھر صرف لوگوں کی بازیابی پہ کیوں شکریہ اختر مینگل؟ یہاں پہ بھی اختر مینگل کا شکریہ ادا کرنا ہوگا ۔اور جب سیما اور ان تمام لوگ کی تصویر سوشل میڈیا پہ آتے ہیں، انہیں بھی شیئر کریں اور لکھیں شکریہ اختر مینگل۔ جب سمی، فرزانہ مجید اور ماما قدیر نے کوئٹہ سے کراچی، کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ کیاتھا وہ تصاویر سوشل میڈیا پہ موجود ہیں اور ان کے پاؤں کے چھالے بھی نظر آتے ہیں، انہیں بھی شیئر کریں اور لکھیں شکریہ اختر مینگل اور جب ماما اکیلے کیمپ میں بیٹھ جائیں اور راہ تکتی نگائیں راہ تک رہے ہونگے اور ماما کی تسبیحوں کی ٹک ٹک کوئٹہ کے اس کونے سے اس کونے تک تمام لوگوں کو سنائی دیتی ہو اور اس کے باوجود بی این پی کے ورکر کوئٹہ کے کسی شوپنگ مال میں لڑکیوں کے پیچھے بھاگ رہے ہوں یا کسی کافی شاپ میں بیٹھ کر قہقہے لگا رہے ہوتے ہیں، اس وقت بھی ماما کے اکیلے پن پہ بھی شکریہ اختر مینگل کہیں۔ اور جب اختر مینگل اسلام آباد کے سرد ہواؤں میں مگن ہو اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیئے کوئی کاغذ قلم لے کر اپنے سیکریٹری سے کل کی تقریر لکھوا رہا ہو اور پاکستانی سلامتی اور جمہوریت کی بحالی کے لئے پُر جوش تقریر کی تیاری کر رہا ہوتا ہے اور بلوچستان کی کسی کونے میں یہی پاکستانی فوج چادر و چاردیواری کی تقدس کو پامال کرتے ہوئے ماں کے سامنے، اس کے لخت جگر کو گھسیٹتے ہوئے ہاتھ پاؤں باندھ کر اور آنکھوں پر کالی پٹی باندھ دیں اور ماں بہنیں تڑپتی ہوئی، اپنی بے بسی کا نظارہ خود دیکھ رہے ہوں اور اپنے بھائی یا بیٹے کو اپنی آنکھوں سے موت کی منہ میں جاتے ہوئے دیکھ کر اپنے بے بسی پہ خود رو رہی ہوتی ہوں اور ان مناظر اور اس بے بس ماں اور بہن کی بے بسی کے لیئے بھی شکریہ سردار اختر مینگل۔
جب کوئی اپنی ساری زندگی کے جمع پونجی لے کر ایک گھر بناتا ہے اور یہ بد معاش پاکستانی آرمی آکر اس کو جلاکر جاتا ہے، وہاں پہ بھی شکریہ اختر مینگل۔ جہاں کوئی ماں یا بیٹی اپنے بھائی اور بیٹے کی راہ تک رہے ہیں، ناجانے کب در کھلے گا اور ہمارے جگر گوشے آ پہنچ جائے اور اس انتظار کے لئے بھی شکریہ اختر مینگل اور جہاں ایک ماں یا بہن کی آنکھیں سوج گئی ہیں راہ تکتے تکتے، مگر جب در کھولتا ہے تو پیارے کی لاش سامنے پڑی ہوئی نظر آئے وہاں بھی شکریہ اختر مینگل۔
راسکو سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں بچے بوڑھے کینسر جیسے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اس کے لیئے اختر مینگل کا شکریہ ادا کرنے کا حق تو بنتا ہے اور اختر مینگل جیسے شخصیت کے لیئے صرف ایک جگہ شکریہ اختر مینگل، یہ تو ناانصافی ہوگی اور ہر جگہ ہر کام کے لئے شکریہ اختر مینگل بولنا چاہیئے اور ہر کسی کے منہ پہ صرف یہی الفاظ ہونا چاہیئے شکریہ اختر مینگل۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔