سر خاک میں ہو پھر دستار کہاں؟ – برزکوہی

1028

سر خاک میں ہو پھر دستار کہاں؟

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ہم بلوچ ہیں، دستار ہماری پہچان، ثقافت، علامت، شان وغیرہ ہے۔ جی ہاں! بالکل ایسا ہی ہے، وہی دستار اگر ہم پہن کر کسی ایف سی میجر اور کرنل یا کسی پنجابی چوہدری کے سامنے ہاتھ آگے باندھ کر سر اپنا جھکا دیں، پھر بھی دستار ہماری پہچان اور شان ہوگی؟ وہی دستار ہم پہن کر جب قومی آزادی کے لیئے اٹھائے ہوئے ہتھیار دشمن کے سامنے رکھ کر، ہاتھ اوپر کرکے دشمن کو سلامی ٹھوک دیں، پھر بھی دستار ہماری شان اور پہچان ہوگی؟ ہم دستار پہن کر اس وقت ناچتے رہیں، جب دوسری طرف سیماء جیسی بہنوں کی سسکیوں اور آنسووں کی چمک ہو، پریس کلبوں کے سامنے انکی آہ و زاری اور انتظار ہو اور ہم مونچھوں کو تاؤ دیکر اور بہادری کی پہچان دستار کو سرپررکھ دیں، پھر بھی ہم بہادر بلوچ ہیں، دستار کے وارث ہیں کیا؟

بدنام زمانہ پاکستانی ٹارچر سیل، قلعی کیمپ میں ہزاروں بلوچ نوجوان اور بزرگ پابندِ سلاسل ہیں، جو ہر روز زندگی اور موت کے کشمکش میں گذار دیتے ہیں۔ ان کی درد و تکلیف اور احساس سے کوسوں دور، بیگانہ اور بے خبر سر پر دستار اور ہاتھ میں تلوار اٹھا کر ہم چاکر و گہرام کے اولاد ہیں؟ دستار اور تلوار ہماری پہچان ہیں، تو پھر دستار کس شان و شوکت کے لیے اور تلوار ہاتھ میں لیکر کس کی گردن کاٹنے کے لیئے؟ یا پھر اپنی ہی ناک کٹوانے کی خاطر؟

وطن غلام، قوم غلام، عالمی منڈی سے لیکر علاقائی منڈیوں تک سرزمین بلوچ کا ذرہ ذرہ اور تمام معدنیات نیلام ہوں، وطن کے باسی دو وقت روٹی اور ایک بوند پانی کی خاطر ترس رہے ہوں، پھر بھی تم قوم کے نوجوان سر پر دستار رکھ کر ناچتے ہو، کیسا شان، کیسی پہچان اور کیسی بلوچیت؟ کس نے یہ سکھایا اور کس نے یہ سمجھایا تمھیں کہ یہ بلوچیت ہے؟ کس خوش فہمی میں ہو کہ بلوچیت کا معیار اور تعریف صرف ایک دن، چند گز کپڑے کا ٹکڑا سر پر رکھنے سے آپ عملاً بلوچ بن سکتے ہو؟

اگر بلوچ دستار کی تاریخی حرمت و توقیر کی بات کی جائے تو پھر یہ دستار محض دس گز کا کپڑا نہیں بلکہ یہ ایک علامت ہے، بلوچی عزت، غیرت اور ہمیت کی علامت، بلوچ مزاحمت کی علامت۔ یہ اس تاریخی مزاحمت کی علامت ہے کہ جب بھی کسی بیرونی حملہ آور نے بلوچ مٹی پر اپنے قدم رکھے، تو بلوچ کیسے وطن کی دفاع میں سرپر کفن باندھ کر نکلے اور تب تک لڑے جب تک کہ دشمن کو بھاگنے پر مجبور نہیں کیا، یہ علامت ہے بلوچ غیرت کی کہ دودا سمی کے حرمت و حفاظت کیلئے کیسے قربان ہوا، یہ علامت ہے بالاچ گورگیج کی بیرگیری کی، اس دستار کا ہر پیچ وطن پر قربان ہونے والے شہیدوں کے لہو سے تعبیر ہے۔ یہ اس خون کی علامت ہے جو وطن کیلئے بہا۔

اگر یہ نا سمجھ سکے کہ اس دستار کا معنی کیا ہے، یہ کس چیز کی علامت ہے، پھر یہ محض کپڑے کا ٹکڑا ہے، یہ دس گز کپڑا آپکو بلوچ نہیں بناسکتا، جب تک آپ وطن کے دفاع کے پاسبان، ماؤں بہنوں کی حرمت کے نگہبان نہیں، جب تک دشمن کے بوٹ اپنے سرزمین پر پڑتے دیکھ کر آپکا خون نہیں کھولتا، جب تک ماؤں بہنوں کے آنسو تمہیں بغاوت پر مجبور نہیں کرتے، جب تک بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں دیکھ آپکا بدلے کیلئے خون نہیں جلتا، تب تک آپ دس گز کا بلوچی دستار پہنیں یا پھر دو گزہ پنجابی دھوتی تب تک کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلوچیت میں دستار ہے، دستار میں بلوچیت نہیں۔

آپکو کلچر ڈے منانا ہے؟ آپکو بلوچیت کا اظہار کرنا ہے؟ پھر حقیقی معنوں میں کلچر کو اسکے روح اور تقاضوں کے بنیاد پر منائیں، 2 مارچ کو بلوچ مزاحمت کے کلچر کو زندہ کرتے ہوئے، اپنا دستار اور مری بر پہن کر پہاڑوں کا رخ کریں۔ پھر صرف ایک دن کلچر ڈے نہیں ہوگا بلکہ آپکا ہر شب و روز، ہر ماہ و سال کلچر کا اظہار اور کلچر ڈے ہوگا۔ کلچر ڈے منانا ہے اور کلچر زندہ رکھنا ہے؟ تو پھر یہ کسی پنجابی کرنل کے سامنے سہ چاپی سے زندہ نہیں ہوگا بلکہ اس دستار کیلئے قربان ہونے والے جنید و سکندر کی طرح مر کر اس کلچر کو زندہ رکھا جاسکتا ہے۔

ایسی ثقافت جو اپنی تاریخی پس منظر سے منقطع ہوتے ہوئے، محض ایک دن یا چند دن کیلئے تہوار و فیسٹیولوں میں اظہار پائے، پھر ایسی ثقافتیں محض میوزیم و عجائب گھروں میں ہی زندہ رہ پاتی ہیں۔ زندہ صرف وہی ثقافت رہتی ہے جو آپ کی زندگی اور معمول بن جائے، جسے آپ روز جئیں۔

ثقافت منانے سے پہلے ایک بار ضرور سوچنا کہ ثقافت منایا نہیں بلکہ جیا جاتا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔