بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام شہید اسلم بلوچ کے 32ویں برسی کی مناسبت سے بی این پی کوئٹہ کے جانب سے تعزیتی ریفرنس کلی ترخہ شیرانی میں منعقد ہوا ریفرنس کی صدرات شہید اسلم بلوچ کی تصویر سے کرائی گئی مہمان بی این پی کے مرکزی کمیٹی کے ممبر و رکن صوبائی اسمبلی اختر حسین لانگو، اعزازی مہمان غلام نبی مری تھے۔
شہید اسلم بلوچ شہدائے بلوچستان و دنیا کے تمام قومی تحریکوں کے حقوق کی خطر جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے عظیم انسانوں کے قربانیوں کی یاد میں دومنٹ کھڑے ہوکر خاموشی اختیار کی گئی تعزیتی ریفرنس سے اختر حسین لانگو، غلام نبی مری ، آغا خالد شاہ دلسوز،یونس بلوچ،حاجی حمید اللہ بڑیچ و دیگر مقررین نے شہید اسلم بلوچ کے بلوچ قومی تحریک اور بلوچستانی سرزمین کیلئے طویل سیاسی جدوجہد اور آخرمیں اپنی جانوں کا نذرانہ دینے پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسلم بلوچ نے اپنے سیاسی جدوجہد کا آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی پلیٹ فارم سے کیا اوربلوچ قومی مسائل پرفعال کردار ادا کیا اس سلسلے میں 1987ء کو کراچی کے بلوچ علاقے لیاری ملیر نویتہ، گھڈاپ و دیگر میں منشیات کے خاتمے کیلئے اس وقت کے آمر دور حکومت میں ایک پرامن ریلی کی قیادت کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو منشیات جیسے لعنت سے نکالنے کیلئے آواز بلند کیا اس موقع پر سماج دشمن عناصر نے اور اس وقت کے حکومت نے اس ریلی پر فائرنگ کے نتیجے میں شہید اسلم جان کو شہید کیا ۔ شہید اسلم بلوچ کی شہادت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بلوچ نوجوانوں کو قومی تحریک کی سیاسی قومی جمہوری تحریک سے توجہ ہٹانے کیلئے منشیات کی طرف دھکیلانے کی کوشش کرائی گئی تاکہ وہ قومی جدوجہد سے دستبردار ہوسکیلیکن اسلم بلوچ کی شہادت نے بلوچ قومی تحریک اور بلوچ سماج کو ایک نیا شعور ولولہ پیدا کیا کہ بلوچوں کو مختلف ہتھکنڈوں سازشوں کے نتیجے میں الجھا کر قومی تحریک کو کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جسے ناکام کرنا بلوچ نوجوانوں کا قومی ذمہ داری ہے اور شہید اسلم بلوچ کی جدوجہد و قربانی بلوچ نوجوانوں کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا جسے کسی بھی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتاہے۔بلوچ قومی تحریک بلوچ فرزندوں کی قربانیوں سے بھری ہوئی ہر وقت میں یہاں کے فرزندوں نے استحصالی قوتوں کے بلوچ قوم اور سرزمین کے خلاف توسیعی پسندانہ پالیسیوں کو ناکام بنانے کیلئے جدوجہد کرتے ہوئے وقف کی اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا ۔
انہوں نے کہا کہ بی این پی بلوچ قوم اور بلوچستانی عوام کے ایک ذمہ داری سیاسی نمائندہ جماعت کی حیثیت سے کسی بھی صورت میں ان شہداء کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرینگے اور نہ انھیں رائیگاں جانے دیا جائیگا۔شہداء کے قربانیوں کی بدولت ہی آج بلوچ قومی تحریک اور سیاست میں شہداء کی لازوال قربانیاں اہمیت کے حامل ہیں۔ مائی کلاچی جو بلوچوں کے تاریخی مادر وطن ہیں اور دیگر علاقوں میں بلوچ سیاست معاشرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے سازشوں کو سیاسی جمہوری علمی اور عملی کردار کے ذریعے سے بلوچ کارکنوں کو اپنا بھر پور سیاسی کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ آنے والے تاریخ میں ہمیں کسی بھی صورت میں معاف نہیں کرینگے ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قومی تحریک کیلئے اپنی جان کا نذرانہ دینے والے ہر شہید کی قربانی کی پیچھے ایک بڑافکر و فلسفہ وابستہ ہے بلوچ سیاست اور سماج کو مذہبی انتہاء پسندی فرقہ واریت منشیات کی خرید فروخت کلاشنکوف کلچر میں ملوث کرنے فرسودہ قبائلی رشتوں کو تقویت دینے اور بلوچ قوم کو غربت جہالت پسماندگی کی طرف دھکیلانے حکمرانوں کے ان توسیعی پسندانہ پالیسیوں کا تسلسل ہے جو گذشتہ ستر سالوں سے روا رکھا گیا ہے۔اس کا بنیاد مقصد یہ ہے کہ بلوچ مال و مڈی سائل وسائل قدرتی دولت سے مالال مال اس خطے کے وسائل کو بزور طاقت اپنے دست رست میں لاکر بلوچ قوم کو مزید محرومیت جہالت پسماندگی غربت کی طرف دھکیلا جاسکے بلوچ قوم کو ان سنگین مسائل اور آنے والے چیلنجز سے نکالنے کیلئے بلوچ سیاسی کارکنان دانشوروں تاریخ پر گہری نظر رکھنے والوں پر یہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ قوم کو ان حالات سے نکال کر یہ ثابت کریں کہ بلوچ قوم ایک ترقی یافتہ ترقی پسند سیکولر خیالات رکھنے والے ہیں اور اپنے مادر وطن سرزمین اور قومی شناخت وجود بقاء سلامتی پر کسی بھی صورت میں وقتیً مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہونگے اور شہداء کے ارمانوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے کسی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرینگے۔