سترہ مارچ 2005
پیادہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان کو آگ کی بھٹی بنانے والا پاکستان، معصوم بچوں پر گولیوں کی بارش کرنے والا، آج سترہ مارچ 2019 کو بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں کھیل کی صورت میں ہمارے سوگوار دن کو جشن کی صورت میں منارہی ہے کہ وہ بلوچستان میں ظلم و جبر کی دیوار اونچی کرکے جشن منارہی ہے اور ہمارے بلوچ بھی دشمن کے شانہ بشانہ تماشائی بنکر اپنے اس دن کا نوحہ بھول چکے ہیں، جس میں دشمن ریاست ننھے بچوں کو بھی شہید کرنے سے زرہ برابر بھی نہیں کانپا۔
پاکستان نے بلوچستان کے ایک عظیم لیڈر کو شہید کر کے اس کی میت کو قوم کے حوالے کرنے سے بھی ہچکچایا، آج ہمارے بلوچ بھائی اسی دشمن کے حامی بنے ہوئے ہیں۔
انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہمیں ہمارے ہی گھروں میں یرغمال بنایا جارہا ہے اور ہم ہی اپنے شہیدوں کے لہو سے رنگے دشمن کے ساتھ گلے ملکر اسکی خیر خواہی میں لگے ہیں۔
آج سترہ مارچ کو ہم ڈیرہ بگٹی میں اپنے معصوم بچوں اور اپنے بزرگوں کی مناسبت سے سوگ اختیار کرچکے ہیں لیکن کچھ نا سمجھ نادان بلوچ بھائی آج مٹھائیاں بانٹ کر اسی دشمن کے حق میں سلامتی کے نعرے بازی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ اگر ریاست پاکستان ہمارے ایک عظیم لیڈر کو شہید کرسکتا ہے، وہ اپنے مفاد کی خاطر آپکو بھی استعمال کرسکتا ہے۔
بلوچستان کے پہاڑوں میں آج جتنے بھی سرمچار بیٹھے ہیں، انکا ارادہ کبھی بھی اپنے بلوچ بھائیوں کو قتل کرنا نہیں ہے، انہیں ریاست پاکستان سے لڑنا ہے، انکا مقصد تو پنجابی کو یہاں سے بھگاکر بلوچستان کو اسکے اصل وارثوں کے حوالے کرناہے اور ایسا ہوا بھی ہے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں آج ہمارے بلوچ ٹیچر کی صورت میں انجنیئر کی صورت میں ڈاکٹر کی صورت میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں اور اپنے گھر کے چولہے جلارہے ہیں، یہ سب انہی سرمچاروں کی بدولت ہے اور خود اپنے گھروں سے بے گھر ہیں صرف ہم بلوچ عوام کی خاطر۔
آج بھی جتنے شہری علاقے ہیں، یہ سب بلوچ سرمچاروں کی عقابی نظروں میں واضح ہیں کہ ہمارے اپنے بلوچ ہمارے خلاف دشمن کا بازو بنکر اپنے ہی بازو کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں، انکے نسبت تو وہ بے جان سے پہاڑ بہتر ہیں، کم سے کم وہ تو دشمن کو سبق سکھانے کیلئے بلوچ جہد کاروں کو پناہ دیئے ہوئے ہیں۔ ہمارے دل میں اتنا بھی درد ان کیلئے نہیں ہے کہ ہم اپنے بلوچ بھائیوں کے ہمراہ جہد آجوئی کی منزل پر روانہ ہوں۔
ہمیں تو بس پیسے سے مطلب ہے، اسی پیسے سے مطلب جسے ہم دشمن کے ہاتھوں بھیک کی صورت میں اپنے ہی بھائیوں کا خون بہاکر ہڑپ رہے ہیں اور دشمن یہ پیسے اپنی جیب سے نہیں دیتا بلکہ ہمارے ہی وسائل کو لوٹ کر انہی میں سے کچھ حصہ واپس احسان کی صورت میں ہمیں سونپتا ہے اور ہم بچے کی طرح خوش ہوتے ہوئے اسکی تعریف کرنے لگتے ہیں۔
اگر ہم بلوچ سرمچاروں کے ساتھ محاذ پر نہیں جاسکتے تو ہمیں یہ بھی حق حاصل نہیں کہ دشمن کو انکے نقل و حرکت سے آگاہ کریں۔
تھوڑا سا اپنے ضمیر کو جنجھوڑیں کہ ہم اگر بلوچستان میں رہتے ہیں، ہمارا مادر وطن ہے، ہم اگر ہتیار نہیں چلاسکتے تو زبان چلاسکتے ہیں قلم کی صورت میں تو لڑ سکتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔