ستائیس مارچ: دورِ غلامی کے آغاز کا دن
حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قوم اپنی الگ پہچان، شناخت، رسم و روایات، زبانیں اور زندگی گذارنے کی ہزاروں سال قدیم تاریخ رکھتی ہے۔ بلوچ سرزمین جو کبھی بلوچ قومی یکجہتی اور قومی شناخت کی پہچان ہوا کرتی تھی۔ تاریخ کے پنوں کو پلٹا جائے تو پتا چلتا ہے کہ بلوچ اپنی سرزمین کی خاطر ہمیشہ سے ہی قربانی دیتا آرہا ہے۔ پھر چاہے وہ بیرونی قوت پرتگیزی قبضہ گیر ہوں یا اُنکاسامنا برطانوی قبضہ گیروں سے ہوا ہو، بلوچ قوم کے حقیقی فرزندوں نے ہمیشہ ہی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کا دلیری اور بہادری سے مقابلہ کرکے انہیں یہ احساس دلایا ہے کہ بلوچ قوم اور بلوچستان کسی بھی طرح لاوارث نہیں، اس سرزمین کے مالک بلوچ ہیں اور بلوچ اپنی زندگی اپنے آج اور آنے والے کل کی خاطر درست و بہترین فیصلہ کرنے کی شعور رکھتے ہیں۔
برطانوی قبضہ گیریت جس سے برصغیر کے اکثر ممالک متاثر ہوئے تھے، ٹھیک اسی طرح بلوچ سرزمین بھی اس جبر کا شکار بنی کیونکہ اس وقت کے عالمی و علاقائی قوتیں تخت برطانیہ کے سامنے بے بس تھیں اور بلوچ قومی طاقت کو منتشر کرنے کیلئے قابض قوتوں نے آستین میں چھپے ان سانپوں کو اپنے ساتھ ملانے کا فیصلہ کرلیا تھا جو کسی نہ کسی طرح بلوچ قومی ریاست کو ختم کرکے اپنے علاقائی و قبائلی مفادات کو ترجیح دیتے تھے۔ وہ اپنے علاقوں کو اپنی الگ ریاست سمجھ کر خود کو اُن علاقوں کا بادشاہ تصور کرتے تھے۔ برطانوی سامراج نے بلوچستان پر اپنی قبضہ گیریت کے نشانات چھوڑنے کی خاطر ۱۸۷۱ میں گولڈ سمڈ لائن اور ۱۸۹۵ میں ڈیورنڈ لائن بناکر بلوچستان کو تین حصوں میں تقسیم کرکے بلوچستان کی تاریخی حیثیت پر قدغن لگا دی۔
وقت چلتا رہا اور بلوچ جدوجہد بھی اور بالا آخر ۱۱اگست ۱۹۴۷ کو برطانوی قبضہ گیریت سے بلوچستان (موجودہ پاکستانی مقبوضہ بلوچستان) کے آزادی کی اعلان کی گئی۔ جسے علاقائی ممالک نے تسلیم کرتے ہوئے بلوچستان کی آزادی و خودمختاری کی عزت و احترام کرنے کا دعویٰ بھی کیا۔ چونکہ پاکستان کے نام نہاد بانی محمد علی جناح بلوچستان کے والی خان قلات کے وکیل کے طور پر برطانیہ میں بلوچستان کے کیس کی وکالت کررہے تھے اور ساتھ ہی وہ بلوچستان پر نظریں بھی جمائے ہوئے تھے۔ بلوچستان کی آزادی کے تین دن بعد جب ہندوستان تقسیم ہوا تو غیر فطری ریاست پاکستان کا وجود میں آنا اور وجود میں آکر کچھ ہی عرصے بعد ۲۷ مارچ ۱۹۷۸ کو بلوچوں کی تاریخی سرزمین پر بزور طاقت قبضہ کرکے یہ سمجھے تھے کہ اب ہم اس سرزمین کے مالک اور یہاں کے لوگ ہمارے غلام ہونگے مگر چونکہ نومولود پاکستانی ریاست بلوچ قومی فطرت اور سوچ سے نابلد تھی، تبھی انہیں گذشتہ ستر سالوں سے بلوچستان میں بلوچ قوم کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پھر چاہے وہ سیاسی ہو یا مسلح بلوچستان کی تاریخ کی سب سے طویل اور موثر مزاحمت جسے اکثر لوگ بلوچوں کی آخری مزاحمتی تحریک کہتے ہیں جاری ہے۔
اس تحریک میں بلوچ قوم کی جانب سے ایسے عظیم قربانیاں دی گئی ہیں جنہیں تاریخ میں ہمیشہ وطن پر دیوانہ وار عشق کرنے والے عاشق یاد رکھینگے اور انہی قربانیوں کی بدولت ہی مایوسی اور اندھیروں سے نکل کر روشنی اور آزادی کی جانب گامزن ہوا جاسکتا ہے۔ آج ۲۷ مارچ کا سیاہ دن ہے آج کا دن ہم سے قومی ایمانداری کا تقاضہ کُرتا ہے۔ آج کا دن ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ کس طرح غیر سیاسی اور غیر تنظیمی صورتحال نے ایک آزاد ملک کو پنجاب کا غلام بنا دیا۔ اگر ہم واقعتاً اپنی آزادی چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم آزادی کے بعد ایک بہتر ریاست بن سکیں تو ہمیں آج ہی سے اپنے جماعتوں کو ریاست کے نعم البدل کے طور چلانا ہوگا ۔ ہمیں اپنی انتظامی اور داخلی مسائل کو دیکھ کر ان پر باریک بینی سے علمی فیصلے کرنے ہونگے۔ سب سے بڑھ کر ہمیں خواب غفلت سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرنا پڑیگا اور اپنے عمل کو تیز سے تیز تر کرنے کی خاطر اپنے ساتھیوں سمیت پوری قوم کی شعوری پرورش کرنے کی حد درجہ ضرورت درکار ہوگی تب جاکر ہم اپنی منزل کو پانے اور خواب کو حقیقت میں بدلنے میں کامیاب ہونگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔