ستائیس مارچ اور بلوچستان ۔ عبدالواجد بلوچ

332

ستائیس مارچ اور بلوچستان

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچ قوم کی کئی نسلیں غلامی کی تکالیف اور عذاب سے دوچارہیں، بلوچ قوم ایک تسلسل کو لے کر اپنی آزادی وقار اور سیاسی مستقبل کے لے جدوجہد کررہی ہے، قربانیاں دے رہے ہیں۔

27 مارچ کو’’ یوم غلامی‘‘ کے مناسبت سے قبضے سے لیکر ہنوز منا رہا ہے.بلوچ عوام کی طرف سے 27 مارچ کو جبری الحاق کے خلاف یوم سیاہ کے طور پر منانا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ بلوچ عوام اس جبری قبضے کے خلاف ہیں. متحد ہوکر جبری الحاق کے خلاف عالمی برادری کو ایک واضح پیغام دیا جاسکتا ہے کہ بلوچ قوم دنیا کے آزاد اقوام کی طرح ایک الگ قوم ہے، جس کی اپنی جداگانہ شناخت جغرافیہ زبان اور تاریخ ہے۔ 27مارچ 1948 سے قبل بلوچستان ایک آزاد و خود مختیار ریاست تھی، جس کی اپنی پارلیمنٹ اور انتظامیہ تھی لیکن 27 مارچ کو بلوچستان کو جبری طور پر پاکستان کا حصہ بنایا گیا حالانکہ بلوچ پارلیمنٹ کی جانب سے الحاق کی بھر پور مخالفت کی گئی اور کہا گیا کہ ہم الحاق کے بجائے ایک بہتر ہمسایہ کے طور پر رہ سکتے ہیں لیکن غلام کے طور پر نہیں رہ سکتے، بعد میں پاکستانی سیاست کا حصہ بننے والے غوث بخش بزنجو بھی الحاق کو مسترد کرچکے تھے۔ بلوچ ایوان میں ان کے تقریر تاریخی ریکارڈ کے طور پر موجود ہیں، 27مارچ 1948کوریاست بغیر کسی آئینی و اخلاقی جواز اور بلوچ پارلیمنٹ کے موقف اور بلوچ عوام کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے فوج اتار کر بلوچ وطن کا زبردستی الحاق کرتا ہے، بلوچ عوام کی مینڈیٹ آزادی اور خود مختاری کا احترام کئے بغیر پاکستانی ریاست نے بلوچ وطن پر اپنا قبضہ جماتے ہوئے بلوچ قوم کو غلامی میں دھکیل کر ان سے ان کی آزادی چھین لی، یہ کونسی جمہوریت اور قائدہ ہے کہ کوئی طاقت ور کسی قوم کی آزادی و خود مختاری پر ڈاکہ ڈال کر ان کی زمین اور وسائل کو لوٹ کر ان کی وطن اور جغرافیہ پر اپنی ملکیت جتائے؟ جبکہ بلوچ منتخب پارلیمنٹ الحاق کو مسترد کرکے اسے اپنی قومی آزادی کے ساتھ دشمنی سے تعبیر کریں تو پھر کسی کو بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ جبر اور طاقت کا استعمال کرکے انہیں الحاق پر مجبور کرے۔

بلوچ وطن کا الحاق غیرسیاسی، غیرجمہوری اور غیر معتبر ہے۔ جس میں بلوچ قوم کی رضامندی شامل نہیں ایک منتخب پارلیمنٹ جو مجموعی طور پر عوام کی مینڈیٹ سے تشکیل پاتی ہے اس کی موجودگی میں فرد واحد کے پاس انفرادی طور پر کسی قسم کا اختیار نہیں ہوتا کہ ایک فرد اٹھ کر ایک ملک کا دوسرے ملک کے ساتھ انضمام یا الحاق کا فیصلہ کرے۔ خان قلات احمد یار خان کے ساتھ جبری الحاق کے فیصلہ کو منسوب کرکے ریاست غلط بیانی کرکے اپنی تسلط کو مجرمانہ دلیل کے طور پر قانونی جواز دینے کی سعی لاحاصل کرتے ہوئے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ جب بلوچ قوم برطانیہ کی غلامی سے نجات حاصل کر کے آزادی کے حصول کے لئے گران بار جدوجہد کرتے ہیں تو وہ کیسے پاکستانی ریاست کی غلامی پر راضی ہوسکتے ہیں، وہ ایک غلامی سے نکل کر دوسرے غلامی کوکیسے پسند کرسکتے ہیں۔ 1948کے بعد سے لیکر آج تک بلوچ قوم کو ایک غیر یقینی صورتحال کا سامناہے.

افسوس تو اس بات کا ہوتا کہ بلوچ قومی سیاست کے اندر کچھ قوتیں پتا نہیں کس ایجنڈے کے تحت بلوچ زمین پر ریاستی شب خون مارنے کے عمل کو نت نئی تاویلوں کے زریعے متنازعہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں، کبھی کہتے ہیں کہ 27 مارچ کی قبضہ گیریت سارے بلوچ زمین پر قبضہ نہیں تھا اور کچھ اس بات پر بضد ہیں کہ قبضہ گیریت اور آزادی کا خالص نعرہ مغربی موقف کے برخلاف ہے۔ اس لیئے ہمیں خود مختاری کا سہارا لینا ہوگا. عجیب مزاج ہیں، کیا مغرب نے 27 مارچ 1948 کو پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف لب کشائی کی؟ کوئی قرار داد اس کے خلاف پیش کی؟ اگر نہیں تو ہم کیوں اپنے اصل مقصد سے صرف اس بات پر منحرف ہوں کہ مغربی قانون اس کی اجازت نہیں دیتی! یہ رویہ صرف اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں.

ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ پاکستان کی مصنوعی طور پر بنائی گئی اسلامی ریاست 14 اگست 1947 کو وجود میں آئی تھی یہ نئی مملکت پاکستان اپنے قیام کے پہلے دن سے ہی بلوچستان کی خود مختاری کے لیئے خطرہ بنی رہی اور اپنے قیام کے آٹھ ماہ کے اندر اندر پاکستان نے 27 مارچ 1948 کو بلوچستان کی خود مختار ریاست پر زبردستی قبضہ کر لیا۔ یہ قبضہ لوگوں کے آزادی اور حق حکمرانی کے بین الاقوامی طور پر تسلیم کردہ نظریات کے منافی تھا اور ان حقوق کا ادراک اس قبضے کے پیچھے ہونے والی ناانصافی کی وجہ سے بلوچ عوام کو اب استعماری طاقتوں کے خلاف ایک مشترکہ مہم کی صورت میں اکٹھے ہونے کی ضرورت ہے۔ ان کی جمہوری جدوجہد کو زور پکڑنا ہوگا اور ایک تاریخی موڑ کی طرف بڑھنا ہوگا، جس سے اس قبضہ گیریت کے خلاف مضبوط موقف کارآمد ہو نا کہ ہمارا موقف تنزلی کی جانب محوِ سفر ہو ہر آنے والے دن کے ساتھ بلوچ عوام کے اندر اپنے اس پیدائشی حق کا احساس بڑھنا چاہیئے اور اس جذبے کو قوت بصیرت سے لیس لیڈرشپ کرسکتا ہے نا کہ وقت کے ظالم لہروں کے ساتھ اپنا موقف تبدیل کرنے والا لیڈرشپ کیونکہ 27 مارچ کی ظالمانہ روشِ پاکستان کے عوض بلوچ ستر سالہ بربریت کا شکار ہے.

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔