رخصت اف
تحریر۔ کمال بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ سر زمین جس طر ح اپنے جغرافیائی اہمیت اور ساحل و وسائل کی وجہ سے دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے۔ اسی طرح شعور اور علم و زانت کی میدان میں بھی ہم قدرتی طور پر مالا مال ہیں۔ دنیا میں ایک اہم شعبہ فنکاروں کا ہے۔ بلوچستان میں فنکاروں کی بھی کمی نہیں، جو اپنے فن سے لوگوں کو نہ صرف محظوظ کرتے ہیں بلکہ ان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ حق اور سچ کی خاطر لکھنے والے ہر وقت حق اور سچ کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ یہ انکے عمل و شعور کا نتیجہ ہے، جو صحیح اور غلط میں تمیز پیدا کرنے کی صلاحت رکھتے ہیں۔ ایسے باضمیر انسان اور عظیم فنکار اپنے علم اور عمل سے دنیا میں اہم مقام حاصل کرتے ہیں۔ اگر میں کچھ ناموں کا ذکر کر وں تو رہنمائی حاصل ہو گی۔ ان میں عطا شاد، مراد ساحر، شوکت صحرائی، گل خان نصیر، مبارک قاضی سمیت بہت سے شاعرو ادیب شامل ہیں جن کی شاعری کا ہر لفظ بلوچوں کے ساتھ ساتھ ہر محکوم و مظلوم قوم کی رہنمائی کرتی ہے۔
واجہ مراد ساحر کہتے ہیں
یک آشوبے آرگ بات
نیک ءُ بد پجارگ بات
وانندیں بے بوداں
ہر جاگہ ڈوبارگ بات
شاعر، لوگوں کی احساس کو قید سے آزاد کرنے میں اپنے زانت و شعور کی بدولت فلسفہ، شاعری کی زبان میں رہنمائی کرتے ہیں۔ شاعری معاشرے میں ہو نے والے حالات پر لکھی جاتی ہے۔ اسی لیئے شاعری معاشرہ اور سیاست سے الگ نہیں ہو سکتی۔ آج بھی بلوچستان میں یہ احساس پایا جاتا ہے۔ ہزاروں نوجوان جو اپنی قلم سے اپنے پیغام کو دنیا تک پہنچانے میں کر دار ادا کر رہے ہیں یا ایسے کہیں مستقبل کی پیش بینی کے ساتھ لوگوں کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ شاعر و ادیب قوم کے انمول اثاثے ہیں۔ انکا تحفظ اور انکی دکھائی ہوئی راہ پر چلنا ہر زیرک انسان پر فرض بنتا ہے۔ گوکہ ہر دور میں درباری شاعر بھی ہوتے ہیں مگر اکثریت معاشرے سے جُڑے ہوتے ہیں۔
بلوچ تاریخ اور ادب کو بدقسمتی سے کسی نے اچھی طرح نہیں لکھا ہے۔ اگر کسی نے لکھا ہے تو وہ شاعر ہیں، جنہوں نے اپنے اشعار سے ہمیں اپنی تہذیب، ثقافت، شاعری، قصے، لوک داستانیں، جنگیں غرض ہر چھوٹی بڑی چیز کو بیان کرکے کسی حد تک محفوظ کی ہے۔ اس کی وجہ شاید لکھی ہوئی صورت نہیں بلکہ زیادہ سینہ بہ سینہ یاد کرکے نسلوں کو منتقل ہوتی رہی ہیں۔ انہی سے ہم قدیم شاعری اور تاریخ سے روشنا س ہوئے ہیں۔ بلوچ شاعری اور ادب کو زیادہ عرصہ نہیں کہ کتابی شکل اختیار کرچکا ہے۔ آج بھی ہمارے ہاں اگر بلوچستان کی تاریخ کا ذکر ہوتا ہے، جہاں مختلف مصنفین کی کتابیوں کا ذکر ہوتا ہے ان میں ایک کتاب ’’بلوچستان کی کہانی شاعروں کی زبانی‘‘ نہایت اہم ہے، جسے گل خان نصیر نے یکجا کی ہے۔ یہ بلوچستان میں بہت پڑھا جاتا ہے کیونکہ اسے جامع سمجھا جاتا ہے۔
بلوچستان میں کبھی بھی جنگیں ختم نہیں ہو ئے ہیں۔ اس کی وجوہا ت کیا ہیں۔۔ اس موضوع پر کسی اور دن بحث کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم آج بھی اپنی تاریخ کا تجزیہ کر نے میں ناکام رہے ہیں۔ اسی لیئے ہماری جدید تاریخ بھی جامع انداز میں دستیاب نہیں ہے۔ اس کمی کو آج بھی شاعر اپنے شاعری سے زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان میں مرید بلوچ کی کتاب ’’رخصت اف‘‘ کافی اہم ہے، جو حال ہی میں براھوئی زبان میں شائع ہوا ہے۔ مجھے مرید بلوچ کا کتاب پڑھنے کو ملا۔ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ ہمارے جہد کار اپنے قومی ذمہ داریو ں کو احسن طر یقوں سے نبھا رہے ہیں۔ اب ہر ایک کو سمجھنا ہو گا کہ بند و ق کے ساتھ قلم کا استعمال لازمی ہے۔
ہم مرید بلوچ کی شاعری کو پہلے استاد میر احمد کی زبان سے سنتے آرہے تھے۔ آج اسے کتابی شکل میں پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ یہ بلوچ قوم کیلئے ایک تحفہ ہے۔ اسے پڑھ کر فائدہ اُٹھائیں اور رہنمائی حاصل کریں۔ عمر کا ایک ایسا حصہ آتا ہے، جہاں ہم اپنے استاد اور شاگرد خود ہوتے ہیں کیونکہ پاکستان کی غلامی کی وجہ سے ہم وقت سے پہلے اس اسٹیج پہ ہیں کیونکہ ہمیں تعلیمی اداروں میں داخلے کی اجازت نہیں۔ اگر کوئی جان ہتھیلی پر رکھ کر جرات کرے تو ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے، اسکی کئی مثالیں موجود ہیں۔
بلوچوں میں نام ’’مرید‘‘ بہت اہم ہے۔ حانی مرید کی داستان سے کون واقف نہیں۔ یوں مان لیجئے کہ نام انسان کی شخصیت کو اس کے مطابق ڈھالنے میں کافی مدد دیتا ہے۔ مرید ان ناموں میں سے ایک ہے۔ ایسے ہی ایک شاعر اور قربانی سے سرشار انسان ان ناموں کی اہمیت کو سمجھ سکتا ہے۔ وہ شاید انمول ہوتا ہے، اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہوں کیونکہ میں ایک شئے مرید (رضا جہا نگیر) کو پہلے سے جانتا ہوں۔ وہ شئے مرید جو اپنی زندگی 2013 کو اپنی حانی یعنی سرزمین بلوچستان کیلئے قربان کرتا ہے، امر ہو چکا ہے۔ وہ دیوانگ تھا۔ ایک لیڈر تھا۔ ایک شاعر تھا۔ مریدبلو چ بھی اسی کاروان کا مسافر ہے۔
کہتے ہیں قومی شاعری لوگوں کی سوچ کی ترجمانی کرتا ہے۔ مرید کی شاعری اس وقت محکوم بلوچوں کی تر جمانی کرتی ہے جو شہیدوں کے ارمان سے وابستہ ہے اور شاعری انکی آواز ہے جو دوسروں کے احساس کواپنا احساس سمجھ کر اس احساس کے ذریعے احساس پیدا کرتا ہے۔ اس حقیقت پر نگاہ رکھیں تو شاعری تب محسوس کی جاتی ہے جب انسان حقیقت کو اپنا مقصد بنائے۔ زمین کی مہر ہو یا حُسن کی تعریف ہو، یہ انسان کو جگانے کی کوشش ہے۔ کہنے کا مقصد شاعری کی روح کو سمجھنا ہو گا تو الفاظ کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہو۔ شاعروں کی نظریں ایک عام انسان سے مختلف ہوتی ہے۔ شاعر چیزوں کوکسی اور زاویے سے دیکھتا ہے۔ وہ دوسروں کی احساس کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور اُس احساس کو اپنی شاعری کی مدد سے سامنے لاتا ہے۔
بیا او مرید بیا او مرید دیوانگیں
تو حانلءِ عشقءَ زرئے
ما پہ وطن دیوانگیں
۔گل خان نصیر۔
مرید بلوچ جو کہ ایک جہد کار ہو نے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی ہیں، جس کی رگوں میں سرزمین کی محبت رچی بسی ہے۔ وہ قلم کی نوک کو بھی ہتھیار بنا کر اپنے قوم کی خدمت کر رہا ہے۔ مرید بلوچ مزن نامیں بلوچی زبان کے شاعر اور تاریخ دان گل خان نصیر کی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی قلم دوستی اور کاروان انقلا ب میں نہایت اہم کردار رہا ہے۔ جس طرح گل خان نصیر اپنی شاعری میں نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے:
قدم قدم روان ببت، دلیر ءُ پہلوان ببت
پہ شان مادر یں وطن سراں وتی دیان ببت
گل خان نصیر کی دی ہوئی سبق پر چل کر آج مرید کے الفاظ ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ مرید بلوچ کے خاندان میں ایک اور انمول نام ہے، جسے شہید میر لونگ خان کہتے ہیں۔ مرید کی شاعری کے بارے میں ایک الفاظ کہتا ہوں انکی شاعری بھی انمول ہے جو انسانیت کی ترجمانی کرتی ہے۔
میں چونکہ ایک شاعر نہیں ہوں تو ’’رخصت اف‘‘ کے بارے میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتا۔ البتہ اسے پڑھ کر ہر کوئی بہرہ مند ہوسکتا ہے۔ یہ کتاب جن سے انتساب ہے وہ خود ایک ہستی ہیں، جنہیں لمہ یاسمین کہتے ہیں۔ اس کتاب سے ایک نظم منتخب کرکے میں اس مضمون کا حصہ بنانا چاہتا ہوں:
درد سیم آن ا یپادرمان مس
جون مردہ اُمید اتا ارمان مس
مس بدل قصہ کُل کسک زندہ سلیس
شئے مرید ئس ہر اوخت رحمان مس
یا
بر کہ پٹن اوار
ای تینا ایلمے
نی ضمیر تینا
یا
نن مرید اکن وطن نا
ننکے تو مقتل تخوکے
یا
زار شاد زندگی
خیال یا زندگی
برف ٹی امید نا
بے نپاد زندگی
ذات ضد انا ناجنگ
نت شپاد زندگی
لکھ مرادآخن تیٹی
مرگ بشخ بشخ ئٹی
اتحاد زندگی
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔