ذہنی شکست
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
1948سے لیکر آج تک پاکستان کے خلاف بلوچ قومی مزاحمت، تحریک یا جنگ، مختلف ادوار میں وقتی ہی صحیح لیکن پسپائی، سرد مہری اور شکست سے دوچار ہوتا رہا ہے اور پھر نئے سرے سے شروع ہوا ہے۔ آج گوکہ مختلف محاذوں پر جنگ جاری ہے، مگر آج تک غیر سطحی اور جامع انداز میں کوئی یہ حقیقت پسندانہ اور غیرجانبدارانہ تجزیہ و احتساب کرنے سے کیوں ہچکچاہٹ محسوس کرتا ہے کہ بار بار مزاحمت کی سرد مہری اور خاموشی، پھر سر اٹھانے کی اصل وجوہات کیا تھے اور کیا ہیں؟
“میرا داغستان” کتاب کے مصنف رسول حمزہ توف کے بقول “جب آپ ماضی کو گولی ماروگے، تو مستقبل آپ کو توپ مار دیگی۔” سرد مہری اور خاموشی کے وجوہات کا سرسری یا سطحی بنیادوں پر جائزہ لینا یا مکمل نظر انداز کرنا یا پھر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنا خود مصلحت پسندی اور لاشعوری کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔
موضوعی و معروضی حالات کی تبدیلی، موافق اور غیر موافق حالات کا ردوبدل، دشمن کی جبر و بربریت اور جارحیت اور وسائل کی کمی وغیرہ وغیرہ سب اپنی جگہ لیکن ذہن میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کے باقی کامیاب اور تسلسل کے ساتھ جاری تحریکوں میں ایسے حالت پیدا نہیں ہوئے ہیں؟ بالکل تحریکی تاریخ بتاتی ہے کہ ہر جگہ ایسا ہوتا رہاہے؟ مگر پھر بھی وہ تحاریک کامیابی پر منتج ہوئے یا پھر ان کی جاری جنگ میں ایک تسلسل رہا۔ گوکہ دنیا میں بلوچ کی طرح اور بھی ایسی تحاریک کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، جو سرد مہری کا شکار ہوئے، مگر بحثیت بلوچ ہم بلوچ تحریک پر ہی بحث کرینگے۔
جاری جنگ کی کامیابی کو ممکن بنانے اور تسلسل کو برقرار رکھنے کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ اور خطرناک رجحان میرے قریب اس وقت خود ذہنی حوالے سے ہار اور شکست قبول کرنا ہے اور اس ہار اور شکست کے پیچھے بھی پہلے سے ایک مائنڈ سیٹ موجود ہوتا ہے، سب سے زیادہ خطرناک امر یہ ہے کہ تحریک آزادی یا مزاحمت کا حصہ تو بن جانا یا اس کو شروع تو کرنا، مگر پھر بھی ذہن کے ایک کونے میں واپسی کا دروازہ کھلا رکھنا، واپسی کی کشتیاں نہیں جلانا یعنی آزادی کی جنگ اور مزاحمت کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی، خونی، سماجی، سیاسی، قبائلی مفادات اور حتیٰ کہ دشمن سے بھی رشتہ مکمل نہیں توڑنا اور ذہن میں یہ گنجائش رکھنا کہ اگر تحریک کمزور ہوگئی یا حالات تحریک کے حق میں نہیں رہے تو پھر واپس اپنے عام زندگی کی طرف لوٹ جانا ہے۔
یہ خطرناک سوچ خود ذہنی طور پر پہلے سے شکست اور ہار کی علامت ہوتی ہے اور ناموافق حالات اور دشمن کے جبر و بربریت کی شدت کے سامنے بجائے اور کوئی طریقہ کار ڈھونڈنے اور حکمت عملی مرتب کرنے کے جہدکاروں سے لیکر قیادت کو شکست اور ہار قبول کرواتی ہے۔
اگر ماضی سے لیکر آج تک اس لغو دلیل کے ساتھ کہ وسائل نہیں تھے یا ابھی بھی وسائل نہیں ہیں کہہ کر جنگ بندی کی جاتی ہے تو پھر تحریک یا جنگ کو شروع کرتے وقت یہ کیوں نہیں سوچا گیا؟ یہ کیوں نہیں سوچا کہ اگر ایسی صورتحال کا سامنا ہوگا، تو پھر کیا کرنا چاہیئے؟ اگر نہیں تھا، اگر آج بھی نہیں ہے، تو پھر اس قیادت پر ادراک کے فقدان اور نالائقی کا لیبل لگانا مناسب نہیں ہوگا؟
ہزاروں لوگوں کا خون بہانا، لاکھوں خاندانوں کو درپدر کروانا، پھر ایک مقام پر آکر کھڑے ہوکر کہنا کہ حالات بلوچ کے حق میں نہیں یا جنگ کے لیئے وسائل نہیں ہیں، کیا پھر یہ قوم، جہدکاروں اور شہیدوں کے خون کے ساتھ دغا بازی نہیں ہے؟ کیا جو شہید ہوئے، جو لاپتہ ہیں اور جنہوں نے اپنا گھربار سب کچھ چھوڑ کر دربدر ہوئے، ان کو پہلے کسی نے ایسا اشارہ تک دیا تھا کہ جب وسائل نہیں ہوئے، حالات حق میں نہیں ہوئے، پھر آپ لوگوں کے ذہن میں ہونا چاہیئے کہ ہم جنگ کی دوکان بند کردینگے؟ اگر ان کو بتایا جاتا، تو پھر کیا وہ اس طرح آپکی جنگی منافع خوری کے لیئے اپنا سب کچھ قربان کردیتے؟
سب پہلی بات یہ کہ آخر وہ کونسے حالات ہیں، ان کی شکل کیا ہے؟ مجھے کوئی ذرہ بھی سمجھائے کہ وہ بلوچ کے حق میں ہیں یا حق میں نہیں ہیں؟ کب بلوچ کے حق میں تھے اور کب سے نہیں ہیں؟ کیوں اور کیسے حق میں تھے اور ابھی کیوں اور کیسے حق میں نہیں ہیں؟ کوئی وضاحت اور تشریح ؟
بلوچ قوم کی جنگ جدید نیشنلزم کی بنیاد پر مکمل عالمی قوانین و اصولوں کی بنیادوں پر جاری و ساری ہے، اس کا موازنہ آگ اور پانی کے فرق کو سامنے رکھ کر اگر آپ مذہبی جنونیت اور عالمی قوانین کے مکمل خلاف ورزی کرنے والے جنگجو طالبان سے کرنے جائیں تو پھر کیا حالات اور دنیا طالبان کے حق میں تھے؟ بالکل نہیں، پھر کیوں آج اس کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور ہوگئے؟ کیا طالبان بھی اس وقت اگر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر کہتے، دنیا ہمارے جب حق میں نہیں ہے، ہم اس وقت انتظار کرینگے جب ہمارے حق میں ہونگے تو لڑینگے، پھر کیا آج ان کے لیئے اس طرح مذاکرات کا میز سجایا جاتا؟
جہاں تک تحریکی وسائل کی بات ہے، کیا تماشائی بننے یا انتظار کرنے سے وسائل میسر ہونا ممکن ہے؟ کیا دنیا میں کوئی ایسی مثال ملتی ہے کہ آپ کچھ بھی نہیں کرو اور دوسرے آکر آپ کو کہہ دیں کہ آؤ! ہم آپ کو سپورٹ کرینگے؟
قومی وقار، قومی اقدار، قومی عظمت، مورل اتھارٹی، سربلندی، قومی فخر، قومی روایات وغیرہ سب کے سب انتہائی خوبصورت، دلکش، متاثرکن، خواہشات و خیالات اور حقیقت ہیں، مگر جب تک قومی جنگ نہیں ہوگی، اس وقت تک کوئی کسی کو گھاس بھی نہیں ڈالے گا۔ پھر ان چیزوں کی رٹا بازی سے قومی اقدار، قومی عظمت، مورل اتھارٹی وغیرہ قائم ہونا ممکنات میں شمار نہیں ہوگا۔ جب خود قوم، قومی شناخت، قومی بقاء، انتہائی خطرے میں ہوں، تو اس وقت صرف بیٹھ کر قومی اقدار اور مورال اتھارٹی کی صرف راگ الاپنا کیا مضحکہ خیزی نہیں ہے؟ جب قومی جنگ ہوگا، قومی طاقت ہوگا، قومی اقتدار اعلیٰ ہوگا کوئی مجبور ہوکر آپ کو سنے گا، مانے گا، پھر اصل قومی وقار و قومی اقدار اور مورال اتھارٹی قائم ہوگی۔
اپنی قومی کمزوریوں، نالائقیوں، راہ فراریت، مایوسی، شکست کو کم از کم ایسے لبادوں میں پیش کرنا قوم اور نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔
آج اپنے کردار کے بھدے جسم کو قومی وقار، قومی اقدار، مورل اتھارٹی کے دلکش لبادے میں اوڑھ کرچھپانے کی کوشش ہورہی ہے، یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اپنی نالائقیوں اور ذہنی شکست خوردگی کی وجہ سے سب کچھ ہاتھ سے لٹوانے کے ساتھ ساتھ خود سے اعتماد بھی اٹھوالیا، اسی لیئے آج وسائل کی کمیابی اور حالات کے غیر موافق ہونے کا کبھی رونا رو کر بے عملی کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے، اور کبھی انگور کٹھے ہیں کہ مصداق اعتماد کھودینے کے بعد ہر قسم کی حمایت سے محروم ہونے پر یہ واویلا کرتے ہیں کہ “جی! اصل میں ہم خود ہی اسٹینڈ لیئے ہوئے ہیں قومی اتھارٹی قائم کررہے ہیں” اور جو جان جوکھم میں ڈال کر قربانیاں دیکر، اس جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں، اور اپنے عملی کردار کی وجہ سے اگر کچھ وسائل پیدا کرنے اور جہد جاری رکھنے کے قابل ہوئے ہیں، تو اپنے داغدار کردار کو چھپانے کیلئے انکے کردار کو داغدار کرنے کیلئے کہتے ہیں کہ وہ قومی وقار اور مورل اتھارٹی کا خیال نہیں رکھتے۔ قومی وقار آپکے باتوں کے تیر چلانے سے قائم ہوگا یا ریحان، ازل، رازق اور رئیس ہونے سے؟
یہ اس قبیل کے ذہنی شکست خوردہ ابن الوقت لوگ ہیں، جو عمل بیزار ہوکر زبان و بیان کے حد تک اپنے ہر متضاد عمل، پسپائی، غلط حکمت عملی تک کو بھی حکمت و فلسفہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو خلیج میں چندے کو معیوب اور تنظیمی مورل اتھارٹی کیلئے زہرِ قاتل قرار دیکر عالمی حمایت پر تکیہ کرنے کو قومی وقار کہتے تھے، اور آج عالمی حمایت کھونے کے بعد اسے قومی وقار کو زِک پہنچانا قرار دیکر سننے میں آرہا ہے کہ خلیج میں لوگوں کے دروازے کھٹکھٹارہے ہٰیں۔
کل یہی نواب خیربخش پر تنقید کرتے تھے کہ روس نواب کو ہر ممکن مدد دینا چاہتا تھا لیکن نواب نے یہ کہہ کر حمایت لینے سے انکار کیا کہ میں صرف برابری کے حیثیت سے بات کروں گا، یہ تنقید کرتے کہ نواب کی وجہ سے موقع ہاتھ سے چلا گیا تھا، تحریک چلانے کیلئے جو بھی ہاتھ آئے لینا چاہیئے۔ آج بالکل وہی لوگ متضاد بیانیئے پر کھڑے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نا یہ کل صحیح تھے اور نا ہی آج صحیح ہیں، گوکہ انکے کل اور آج میں تضاد ہے، اسکی وجہ محض یہ ہے کہ یہاں بات حالات، وسائل، جنگی صورتحال، عالمی حمایت، قومی وقار، مورل اتھارٹی کی بالکل نہیں ہے بلکہ بات محض فردی و گروہی مفادات کی ہے۔ قومی مفادات سے درکنار جو حالات مذکورہ فرد یا گروہ کے حق میں ہوں، وہ حالات موافق، جہاں انکی فردی اتھارٹی قائم ہوسکے، وہ مورل اتھارٹی ہے اور جو حمایت و کمک اسکے ذریعے سے اسکیلئے ہو وہ قومی وقار کے عین مطابق ہے۔ اور اس سے ہٹ کر اگر کچھ بھی ہوا تو یہ ذہنی شکست کھاکر خود کو ڈوبتا محسوس کرتے ہیں اور پھر اپنے ساتھ سب کو ڈبوانے کیلئے ہاتھ پیر مارتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔