دو مارچ ثقافت ڈے
حمایت، مخالفت اور حقائق
تحریر۔ لطیف بلوچ
2 مارچ ثقافت ڈے کو لیکر ایک بحث کا آغاز ہوچکا ہے ، کچھ ساتھیوں کا موقف ہے کہ ثقافت ڈے کو منانا چاہیئے اور کچھ اختلاف رکھتے ہیں اور جو اختلاف رکھ رہے ہیں، اُنکا اختلاف ثقافت ڈے اور منانے سے ہرگز نہیں ہے وہ نہ ثقافت کے خلاف ہیں، نہ منانے کے اور نہ ہی ثقافت کی ترقی و ترویج کو روکنا چاہتے ہیں، اُن کا جو نقطہ نظر ہے اُس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب تک آپ نقطہ نظر کو نہیں سمجھیں گے ضد اور ہٹ دھرمی کا شکار رہیں گے، تو پھر اصل حقائق سے نابلد ہی رہیں گے، 2 مارچ ثقافت ڈے کا مخالفت نہ اس لئے کیا جارہا ہے کہ ایف سی اہلکار دستار سر پر سجاتے ہیں اور نہ ہی اس لئے کیا جارہا ہے کہ حالتِ جنگ میں خوشی منانا نامناسب یا حرام ہے، یہ دونوں نقطے کچھ لوگوں کی ہی ذہنی اختراع ہیں، وہ حقائق کو جاننے، سمجھنے اور پرکھنے کے بجائے یہ نتیجہ اخذ کرچکے ہیں کہ جو لوگ 2 مارچ ثقافت ڈے کے مخالف ہیں، وہ شاید انہی دو نقطوں کو لیکر مخالفت کررہے ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہے بلوچ ہر روز اپنے کلچر کو اجاگر کریں، ہر روز ثقافتی، ادبی دیوان منعقد کریں، ہر روز بلوچی لباس و دستار زیب تن کریں، ہر روز صدری، چھڑی اور چوٹ پہنیں کوئی مخالفت نہیں کرے گا کوئی انہیں نہیں روکے گا نہیں ٹوکے گا۔ آج بلوچ جہد کار پہاڑوں میں محاذ پر دوران جنگ اپنے ثقافتی لباس زیب تن کرتے ہیں، دستار بھی سر پر سجاتے ہیں، چوٹ بھی پہنتے ہیں، خوشی بھی مناتے ہیں، سجی بھی بناتے ہیں، کُرنوں بھی کھاتے ہیں، خوشی اور غم کے رموز سے بھی واقف ہے۔
بی ایس او نے بلوچ ثقافت کو اجاگر کرنے کے لئے 2 مارچ کے دن کا تعین کیا، یہ حقیقت ہے کہ بی ایس او نے بلوچ نوجوانوں کو اُنکے ثقافت، تاریخ اور شناخت اور اُن کے آباواجداد کے کردار، قول اور بہادری سے روشناس کرانے کے لئے اس دن کو کلچرل ڈے کا نام دیا لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نوآبادیاتی قبضہ گیروں نے کیوں بی ایس او کے اعلان کردہ کلچرل ڈے کو سبوتاژ کیا؟ کیوں اُنہوں نے 2010 کو بلوچستان انجنیئرنگ یونیورسٹی میں کلچرل ڈے کے پروگرام کو بموں سے نشانہ بناکر سکندر بلوچ اور جنید بلوچ کو شہید اور درجنوں نوجوانوں کو زخمی کیا؟ آج بھی کئی نوجوان اپاہج ہیں، ریاست اور ریاستی فورسز کو کل بلوچ کلچرل ڈے سے کیوں خوف تھا اور آج کیوں محبت ہوگئی ہے؟ آج بھی عام دنوں میں ہمارے کلچر کی توہین کرتے ہیں۔ بڑے شلوار، بڑے بال اور مونچھیں رکھنے والے نوجوانوں کو، بزرگوں کو سرے راہ بے عزت کیا جاتا ہے، ایسے ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ہیں کہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے بلوچ بزرگ کو بے عزت کرتے ہیں، دستار اور مونچھوں کی بے حرمتی کرتے ہیں۔
ثقافت کے امین وہ لوگ ہیں، جو بغیر کسی شوشا، نمائش اور فوٹو سیشن کے ہر دن ثقافتی لباس زیب تن کرکے دستار سر پر سجا کر، سدری اور چوٹ پہن کر چھڑی ہاتھ میں لیکر گلہ بانی، زمینداری اور روز مرہ کے دیگر کاموں کے لیئے نکل جاتے ہیں، اُن کی وجہ سے ثقافت زندہ ہے، ہم تو بس سال میں ایک دن کچھ گھنٹوں کے لئے یہ سب کچھ فوٹو سیشن اور سوشل میڈیا پر ڈالنے کے لئے کرکےسمجھتے ہیں کہ ہم نے ثقافت کو زندہ رکھنے کے لئے بہت بڑا کام کیا ہے، یہ خیام خیالی ہے۔ جس طرح دستار اور مونچھیں ہمارے ثقافت کا حصہ اور ایک جزو ہیں، اس طرح اُنکی حفاظت بھی ہمارے ثقافت کا حصہ ہے، قبضہ گیر پنجابی ریاست اور فوج سے جنگ بھی اسی ثقافت، تہذیب، تمدن، بلوچ تاریخ، زبان اور شناخت کو بچانے کے لئے لڑی جاری ہے۔ قبضہ گیر صرف فوج اور طاقت سے قبضہ نہیں کرتی بلکہ وہ تاریخ، شناخت اور تہذیب و تمدن کو مٹاکر اُس قوم کی پہچان کو مسخ کرتی ہے، مخالفت بلوچ کلچرل ڈے کو لیکر نہیں ہورہی بلکہ اس دن کے مناسبت سے جو پروگرامز ایف سی کیمپوں، چھاؤنیوں، سرکاری سطح پر ترتیب دیئے جاتے ہیں، پروگرامز اور وِش ٹی وی کے ذریعے جس طرح بلوچ کلچرل کو مسخ کرنے کی سازش اور کوشش کی جاری ہے، ایسے عناصر اور عوامل کی حوصلہ شکنی اور انہیں روکنے کے لیئے ساتھی اپنے تحریروں میں بلوچ قوم کو حقائق بتانے اور ریاستی کلچرل پروگرامز میں جانے سے روکنے کے لئے ان کیمپوں اور چھاؤنیوں میں منعقد کئے گئے پروگرامز کی نقصانات، مضمرات سے آگاہی دینے کی کوشش کررہے ہیں اور مقصد ہرگز یہ نہیں کہ خوشیوں پر قدغن لگاکر بلوچ سماجی سرگرمیوں کو روکا جائے یا ان کی مخالفت کی جائے۔
جہاں تک بی ایس او کے کلچرل پروگرامز اور ایف سی اور سرکار کے کلچرل ڈے کے موقع پر پروگرامز کا موازانہ کیا جارہا ہے، وہ بلکل حقائق اور پروگرامز کی افادیت سے نابلد ہونے کی دلیل ہے۔ بی ایس او کے کلچرل ڈے پروگرامز میں بلوچ قوم کو اُن کی کلچرل کے تمام جزو سے آگاہی دی جاتی تھی، اور پاکستان و پنجابی کی ثقافت اور قبضے سے آگاہی دی جاتی تھی۔ بلوچ شہداء کی قربانیوں پر روشنی ڈالی جاتی تھی، تاکہ بلوچ قوم و خصوصاً نوجوان اپنے ثقافت، تاریخ اور مزاحمت سے آگاہ ہوسکیں۔ وہ نوری نصیر خان، خان محراب خان، حمل و جئیند، چاکر و گہرام، نوروز خان، خیر بخش مری، و دیگر ہیرووں کو جان سکیں لیکن آج ریاستی کیمپوں میں بلوچ ثقافت، تاریخ، زبان کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاری ہے، بلوچ خواتین کو ایف سی کیمپوں میں جمع کرکے کلچرل کے نام پر ایف سی اور پنجابی فوجیوں کے سامنے رقص کروایا جاتا ہے۔ معذرت سے یہ ہمارے کلچر کا حصہ نہیں ہے، یہ پنجابی کلچرل ہے جو بلوچ کلچرل ڈے کے نام پر ہمارے کلچر کیساتھ اپنے کلچر کو مکس کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
بلوچ ہیرووں کو ولن اور دہشت گرد جبکہ محمد علی جناح، اقبال اور ایسے دیگر متنازعہ کرداروں کو ہیرو بناکر پیش کیجاتی ہے، بلوچ مزاحمت کو دہشت گرد تحریک کی روپ میں پیش کیجاتی ہے۔ ہمارے وہ ساتھی جو کلچرل ڈے کو نوآبادیاتی جبر کے عہد میں ہوا کا تازہ جھونکا قرار دیتے ہیں، وہ ذرا کوئٹہ، خضدار، تربت، پنجگور ، نوشکی سمیت دیگر علاقوں میں کلچرل ڈے کی مناسبت سے پروگرامز کے بارے میں وہاں بلوچ ثقافت کی آڑ میں پیش کئے گئے رقص و سرور سمیت اُنکی تقریروں کا جائزہ لیتے، بہت سے حقائق اُنکے سامنے کھل کر آتے، لیکن نہیں ضد ہے ایک نے اگر مخالفت کی ہے یہ جانے بغیر کے اُس نے مخالفت کیوں کی ہے؟ بس ہمیں اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے ہر صورت میں اس چیز کو صیحح ثابت کرنا ہے کیونکہ میرے کسی مخالف سوچ رکھنے والے لکھاری یا دانشور نے مخالفت کی ہے، پھر ضد اور انا پرستی کا شکار ہوکر ہم حقائق کو جانے اور رسائی حاصل کرنے کی بھی تکلیف نہیں کرتے۔ یا اس لئے تمام اُن غلط چیزوں کو صحیحح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ میں نے دستار، لباس زیب تن کیا تھا، اب ایسے لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ شاید لکھنے والے نے میری مخالفت میں لکھا ہے۔ یہ اُنکی ذہنی اختراع ہے کوئی بلوچ اپنے ثقافت کو اجاگر کرتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی بلوچ اپنا ثقافتی لباس، دستار اور سدری کو زیب تن کرتا ہے اُس کی کوئی مخالفت نہیں کررہا بلکہ ثقافت کو مسخ کرنے کے لئے کیمپوں، چھاؤنیوں میں اور وش ٹی وی چینل کے ذریعے جس طرح بلوچ ثقافت کی تذلیل کی جاتی ہے، وہ ناقابل برداشت عمل ہے۔
اب یہ طعنہ ایک فرد اور تنظیم کو نہیں دی جاسکتی کہ وہ ثقافت کو بچانے یا اجاگر کرنے کے لئے کیوں قوم کو شعور دینے یا ایسے ریاستی تقریبات سے روکنے کے لئے حکمت عملی طے نہیں کرتی ہے، حکمت عملی کسی کے پاس تا وقت نہیں کیونکہ گراونڈ پر آزادی پسند سیاسی تنظیموں کا اثر و رسوخ نہ ہونے کی برابر ہے۔ اس کی وجہ تنظیموں یا قیادت کی نالائقی نہیں بلکہ ریاستی جبر و بربریت ہے، وہ ایسے کسی سیاسی تنظیم کو نہ پنپنے دیتے ہیں اور نہ ہی ایسے کسی فرد کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں، جو بلوچ تحریک، سیاست اور ثقافت کی بات کرے، یہ ہزاروں بلوچوں کی گمشدگی اور مسخ شدہ لاشیں، بلوچ دانشوروں، ادیبوں، آرٹسٹوں، شعراء و گلوکاروں کی مسخ لاشیں اور ٹارگٹ کلنگ اس نوآبادیاتی جبر کی واضح نشانی اور بلوچ تحریک، مزاحمت اور سیاست، شناخت کو کچلنے، بلوچ ثقافت، تہذیب و تمدن، زبان، رسم و رواج، اور اقدار کو مسخ کرنے کی بھر پور کوشش ہے، اُستاد صباء دشتیاری اور ایسے دیگر کرداروں کی ریاستی قتل فردوں کی نہیں بلکہ قومی شعور، زبان، ادب اور ثقافت کا قتل تھا۔ اس گھمبیر صورتحال سے نکلنے کے لئے بلوچ قیادت و کارکنوں کو سنجیدگی، سیاسی بالغ نظری، بالیدگی کا مظاہرہ کرکے بلوچ قومی قوت و طاقت کو یکجاء کرکے اتحاد و یکجہتی کے لئے کام کرنا چاہیئے پھر ہم بلوچ ثقافت، تہذیب اور اقدار کو مسخ ہونے سے بچانے اور قوم کو اپنی ثقافت کے اصل رنگوں سے روشناس کرانے میں کامیاب ہوسکیں گے، اس طرح ایک دن دستار اور لباس زیب تن کرکے چھڑی یا تلوار ہاتھ میں لیکر یا ثقافت ڈے منانے اور نہ منانے کی حمایت و مخالفت کرنے سے ثقافت، زبان اور شناخت کو نوآبادیاتی قبضہ گیروں کے ہاتھوں مسخ ہونے، روندنے اور ختم کرنے سے نہیں روک سکتے اس کے لئے قومی اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیئے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔