خیال – لطیف بلوچ

742

خیال

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

جب کسی چیز، کسی کام کے بارے میں سوچتے ہیں، تو اس وقت مختلف خیالات دماغ میں گردش کرنے لگتے ہیں، خیال سوچنے کی صلاحیت پر منحصر ہے، سوچنے کی صلاحیت جتنی زیادہ ہوگی، خیالات بھی اس تیزی سے دماغ میں آتے رہینگے۔ جب ان خیالات کو پرکھ کر ان کو مزید تراش کرلکھا جائے گا، فیصلہ کیا جائے گا اور کوئی حکمت عملی ترتیب دی جائے گی تو اس طرح حالات، واقعات، اور سماج کو سمجھنے و فیصلہ کرنے میں آسانی پیدا ہوتی جائے گی۔ میں تحریک اور شہداء کو سامنے رکھ کر سوچ رہا تھا تو اس دوران میرے دماغ میں مختلف خیالات آرہے تھے، تحریک اور تحریکی مشکلات و مصائب بھی دماغ میں اضطراب کی کیفیت پیدا کررہے تھے، سوچ میں پیچیدگی کیساتھ وسعت بھی آرہا تھا، جب پیچیدگیوں اور مشکلات کے گھتی کو سلجھانے کے لیئے کوشش کی جائے یا اس متعلق دماغ کے بند دریچوں کو استعمال میں لاکر پوشیدہ مسائل سے پردہ ہٹانے اور اُنھیں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بہت سے مشکلات حل ہوجاتے ہیں، بہت سے پیچیدہ مسائل کو سلجھانے کی طرف بڑھا جاسکتا ہے، اب یہ تمام معاملات دماغی صلاحیت پر منحصر ہیں، جب دماغی استعداد میں اضافہ ہوتی رہے گی اور علم کو عمل میں ڈھالنے کی کوشش کی جائے گی، تو مسائل پر قابو پا لیا جائے گا۔ اگر علم و عمل میں فاصلہ رہے گا، پھر آسان مسائل بھی حل ہونے کے بجائے مزید گھمبیر و گنجلگ بنتے جائیں گے اور فاصلے مزید بڑھتے جائیں گے اور معاملات مزید سر اُٹھاتے رہینگے اور یہ چھوٹے چھوٹے حل طلب چیزیں دیوہیکل مسائل کی شکل اختیار کرکے سامنے کھڑے ہوجائیں گے اور غلطیوں پر غلطی اور مسائل پر مسائل بڑھتے جائیں گے اور بے قابو ہوکر کنٹرول و سنبھلنے سے باہر ہوجائیں گے۔ پھر ایسے صورتحال میں ٹوٹ پھوٹ، اختلافات، نفرتیں، عدم برداشت، بغض، کینہ، عدم رواداری، عدم اعتماد اور بے یقینی کی صورتحال بڑھتی جائے گی۔ لیڈران اور تنظیمیں ایسی صورتحال سے دو چار ہونگے، تو پھر کارکنوں اور قوم میں کنفوژن، مایوسی اور بددلی میں اضافہ ہوگا، جب لوگ ایسی صورتحال کا شکار ہونگے پھر تحریک اور لوگوں و سماج میں خلیج پیدا ہوتے رہے گی اور اس خلیج و خلا کا فائدہ دشمن اُٹھائے گی اور کارکنوں و لوگوں کی کمزوری دشمن کی طاقت بنتی جائے گی۔

بلوچ قومی تحریک کا جائزہ لیں تو بہت سے کمزوریاں سامنے آتے ہیں اور یہ کمزوری کسی ایک فرد، لیڈر اور تنظیم کے اندر نہیں بلکہ ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کا شکار مجموعی طور پر تمام تنظیمیں اور لیڈرشپ ہیں۔ تنظیمیں اپنے اندرونی کمزوریوں پر توجہ دینے کے بجائے دیگر تنظیموں کی اندرونی مسائل میں مداخلت کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اگر تنقید اصلاح کےلیئے ہو اور تعمیری و مثبت ہو تو بہت بہتر اور خوش آئند عمل ہے، تنقید برائے تنقید بہت خطرناک اور نقصان دہ ہے اور اس بے جاء منفی سوشل میڈیا تنقیدی عمل کا خمیازہ تحریک نے بھگتا ہے، تنظیموں کے اندر اصلاحی تنقیدی عمل انتہائی ضروری ہے، تنظیمیں کارکنوں میں اصلاحی تنقید نگاری کو پروان چڑھائیں اور تخریبی تنقیدی عمل کو روکیں تو اس عمل سے تنظیمی ادارے مزید مضبوط ہونگے۔

تنظیموں کی کمزوریوں کا فائدہ اب فرد اُٹھا رہے ہیں اور تحریک کی نمائندگی تنظیموں کے بجائے فرد کررہے ہیں، لیکن ہم تحقیق و جستجو کرنے اور ان انفرادی سرگرمیوں کو پرکھنے اور ان کے نقصانات و فوائد کا جائزہ لیئے بغیر سمجھتے ہیں کہ یہ انفرادی سیاسی سرگرمیاں تحریک کے لیئے سود مند ہیں، یہ ہماری خام خیالی ہے کیونکہ یہ افراد کسی بھی تنظیم اور ڈسپلن کے پابند نہیں جو کام کررہے ہیں، یہ بھی آگے جاکر تحریک اور تنظیموں کے لئے مشکلات کا باعث بنیں گی کیونکہ فرد کسی ڈسپلن کا پابند نہیں ہوتے اور وہ اپنے ذاتی نقصان اور فائدے کو دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں، جس سے افراد کو فائدہ ضرور پہنچے گا لیکن مجموعی طور پر دیکھیں اس سے تحریک نقصانات کا سامنا کرے گی۔ ایسے افراد و انفرادی کرداروں کی حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کی جائے اور تمام پارٹیاں و تنظیمیں ملکر ایسے کرداروں کے بابت مشترکہ لائحہ عمل طے کریں اور ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کریں۔ عالمی سطع پر ان کے بابت اداروں، تنظیموں اور میڈیا کو آگاہی فراہم کریں۔ پارٹیوں اور تنظیموں کی نا اتفاقیوں کا فائدہ اُٹھا کر ایسے عناصر سرگرم ہوچکے ہیں، تحریک کو مضبوط و منظم بنانے اور تحریکی منافع خوروں کا راستہ روکنے کے لیئے اتحاد و اشتراک عمل ضروری ہے۔

کچھ سال قبل اشتراک عمل و اتحاد کی بازگشت سنائی دینے لگی کہ آزادی پسند سیاسی تنظیمیں اتحاد کے لیئے گفت و شنید کررہے ہیں اور اتحاد کے لیئے سوئٹزرلینڈ میں مختلف بیٹھکیں بھی ہوئیں لیکن رزلٹ صفر رہا، کوئی پیش رفت نہیں ہوئی اور یہ سلسلہ جہاں رُکا اب تک وہی رُکی ہوئی ہے، یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ اتحادی عمل کیوں تعطل کا شکار ہوا، کن نقاط کو لے کر اتحادی عمل اور گفت و شنید کا سلسلہ ختم ہوا یا اختلافات کا شکار ہوا، مذاکرات اور اشتراکی عمل میں شامل کسی پارٹی نے قوم کے سامنے آکر حقائق بیان کرنے کو ضروری نہیں سمجھا، چھوٹے چھوٹے اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے، قوم و کارکنان میں کنفوژن پھیلا کر مایوسی کا شکار بنایا جاتا ہے، اصل حقائق کو ہمیشہ قوم و کارکنوں سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے، تمام لیڈان اور تنظیمیں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اتحاد و اتفاق انتہائی ضروری ہے اور ہم الگ الگ رہ کر منزل کو نہیں پا سکتے، تمام پارٹیاں یہ سمجھتے ہیں اور بخوبی جانتے بھی ہیں کہ اتحاد کے بارے ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے یہ سمجھنے کے باوجود لیت و لعل سے کام لی جارہی ہے کیوں؟

اتحاد و یکجہتی کے لئے سنجیدگی اور نیک نیتی شرط اوّل ہے جب تک سنجیدگی اور نیک نیتی نہیں ہوگی اتحاد کا قیام مشکل نہیں بلکہ ناممکنات میں شامل رہے گی۔

اتحاد خالی خولی بیانات، ٹوئٹس اور واٹساپ گروپس کے ذریعے ہرگز تشکیل نہیں پا سکے گی، اتحاد کے لئے لیڈر شپ کو اعتماد کے فقدان کا خاتمہ کرکے عملی کردار ادا کرنا چاہیئے، ایک دوسرے کے سیاسی کردار اور اہمیت کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے، مربوط قومی اتحاد کی تشکیل کے لیئے بلوچ لیڈروں کو فرسودہ خیالات سے چھٹکارا حاصل کرکے اپنے خیالات میں جدت لانا ہوگا، علاقائی و قبائلی سوچ و خول سے نکل کر قومی سوچ اپنانا ہوگا، رواداری، ہم آہنگی کو فروغ دے کر رویوں میں لچک پیدا کرنا ہوگا۔ سیاسی بصیرت، دور اندیشی،بردباری، تحمل اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرنا، سیاسی، فکری، ذہنی اور نظریاتی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے بحث اور مکالمے کا آغاز کرنا اولین شرط ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔