تحریک اور ریڈیو کا کردار – حکیم واڈیلہ

340

تحریک اور ریڈیو کا کردار

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

فرانز فینن اپنی کتاب سامراج کی موت کے دوسرے باب الجزائر کی آواز میں بہت ہی عمدہ اور اعلیٰ طریقے سے اس حقیقت کو بیان کرتے ہیں کہ جس ریڈیو کو فرانسیسی قابض الجزائری قوم کیخلاف غلط پروپیگنڈہ اور جھوٹ پھیلانے کی خاطر استعمال کرتے تھے، کس طرح عام لوگوں کو حقائق سے بے خبر رکھنے اور جھوٹی خبر پھیلانے کیلئے سامراجی آواز کو اپنے لوگوں کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچاتے اور پھر انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے کہ کس طرح فرانسیسی قبضہ گیر باغیوں کا صفایا کررہی ہے اور انہیں ختم کررہی ہے اور الجزائری تحریک کو ختم کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہے، جس کے سبب عام لوگوں میں مایوسی، خوف، ڈر اپنی زبان اور روایات سے بیگانگی پیدا کرنے کی ایک کوشش کی گئی۔ جس کی وجہ سے بہت سی جگہوں پر لوگوں میں بے چینی اور انقلابیوں کی خاطر مشکلات پیدا ہوئے۔

مگر الجزائری انقلابی قیادت نے ان حالات کا ادراک کرکے کس سنجیدگی اور عزم کے ساتھ دشمن کے ہی ہتھیار ریڈیو کو اپنی آواز بنا کر، اپنے عوام تک، اپنی آواز پہنچانے، انہیں جنگی و انقلابی حالات سے باخبر رکھنے اور یہاں تک کہ اپنے پیغامات پہنچانے سمیت لوگوں میں شعور پھیلانے اور انقلاب سے قربت بڑھانے کی خاطر انقلابی گیتوں سمیت حقیقی نیوز بھی ان تک پہنچانے کی خاطر ریڈیو پروگرامز کا آغاز کیا۔ جس کی شروعات کافی چھوٹے پیمانے پر کی گئی ۔ مگر انقلابی قیادت کی شب و روز محنت اور ایماندارانہ کاوشوں سے ریڈیو وہ ذریعہ بنی، جس نے الجزائری عوام کو انقلابی قیادت کو براہ راست سننے ان کے مشن کو سمجھنے انکی کامیاب کاروائیوں کی خبروں کو جاننے کا موقع دیا اور ساتھ ساتھ ان میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونماء ہونے لگیں کیونکہ جس ریڈیو پر پہلے فرانسیسی یہ افواہیں پھیلاتے تھے کہ انہوں نے کتنے باغیوں کو شہید کیا یا نقصان پہنچایا اور کس طرح آزادی کی تحریک کو کچلنے میں ہم کامیاب رہے ہیں۔ اب اس کے برعکس فرانسیسی فوجیوں کو شکست ان پر گوریلہ حملوں کی خبریں اور آزادی کے تحریک کو لیڈ کرنے والے ان رہنماوں کے پیغام جو پہاڑوں میں موجود تھے وہ بھی عوام کو ریڈیو کے ذریعے سننے کو ملتے۔

یہاں ایک اہم بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ ۱۹۵۴ میں لڑی جانے والی جنگ میں اگر الجزائری قوم میڈیا کی اہمیت کو سمجھ کر اپنے عوام سے مخاطب ہوکر انہیں اپنی جنگی و سیاسی کامیابیوں کے بارے میں بتاتی رہتی اور انہیں اسی ریڈیو کے ذریعے انقلابی درس دیکر اپنے کاروان میں شامل کرنے میں کامیاب رہی ہے، تو آج کے اس جدید دور میں جہاں ریڈیو سمیت کسی بھی طرح کے میڈیا کا چلانا انٹرنیٹ کی مدد سے اس قدر آسان ہوچکا ہے کہ اگر آپ کو ریڈیو فریکوینسی بھی میسر نہ ہو تو آپ پھر بھی اپنی بات ہزاروں لوگوں تک منٹوں میں پہنچا سکتے ہیں اور اپنے پیغام کو ان علاقوں تک پہنچاسکتے ہیں، جہاں دوسرے طریقوں سے ہماری آواز نہیں پہنچ سکتی یا نہیں پہنچائی جاتی۔

بلوچ قومی تحریک میں موجود ساتھی، لیڈران، دانشوران، کیڈرز اور صحافی اس اہم ذرائع ابلاغ کو کیونکر سنجیدگی سے استعمال میں نہیں لاتے اور عوامی تبلیغ کا کام جو آج کے سنگین حالات میں اگر آمنے سامنے نہیں ہوسکتی تو کم از کم اپنی آواز یا پیغامات پہنچا کر یہ کام ہم کرسکتے ہیں۔

بلوچ رہنما، دانشور و صحافی مختلف موضوعات پر اگر آنلائن ریڈیو کی شکل میں یا سوشل میڈیا لائیو ڈیبیٹس میں مسلسل حصہ لیکر بلوچ قوم سے مخاطب ہوکر یہ پیغام دیں کہ ہم ان کے درمیان موجود ہوکر دشمن سے نبردآزما ہیں، ہم دشمن کے تمام حربوں اور مکاریوں سے واقفیت رکھتے ہیں اور ان مکاریوں کیخلاف ہماری جدوجہد جاری ہے۔ ہم بلوچ عوام کو بتائیں کہ ان سے ہماری کیا توقعات ہیں، انہیں کس طرح سے تحریک میں کردار ادا کرنا چاہیئے اور وہ کس طرح سے دشمن کی مکاریوں سے محفوظ رہ کر تحریک کی پرورش کرسکتے ہیں، اس طرح کے بہت سے اہم اور ضروری کام ہم خود کو محفوظ اور عوام کے درمیان رہ کر کر سکتے ہیں۔

اس کیلئے ضروری امر یہ ہے کہ ہم اپنے “کمفرٹ زون” کو خیر آباد کہہ کر خیالی دنیاوں سے نکل کر حقیقی طور پر عمل کرنے اور عوامی بیداری کیلئے شب و روز کوشش کرنے کی خاطر اپنے ذاتی خواہشات اور مصروفیات کو پس پُشت ڈال کر صرف اور صرف اس بات پر توجہ مرکوز کریں کہ ہماری آواز ہی انہیں حریت کے جذبے سے سرشار کرسکتی ہے۔ ہم اگر اس بات کا ادراک کرلیں کہ صرف حادثات و واقعات پر سیاست کرنے کے بجائے ہم حقیقی طور پر عوامی شعور پھیلانے کا کام کریں تو ریاستی میڈیا، ان کا پروپیگنڈہ اور انکے پالے ہوئے مکار سیاسی چالباز و چاپلوس زیادہ دنوں تک عوام کو گمراہ و مایوس نہیں کرسکتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔