بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ ستائیس مارچ کے یوم سیاہ کی مناسبت سے آج بلوچستان اور بیرون بلوچستان آگاہی مہم، ریفرنسز جیسے پروگراموں کا انعقاد کیا گیا اور سوشل میڈیا میں #27 MarchBlackDay کی ہیشٹیگ سے ایک آن لائن مہم چلائی گئی جس میں مختلف ممالک سے بڑی تعداد میں بلوچ اوربلوچ قوم کے خیرخواہ سوشل میڈیا کے صارفین نے شرکت کی۔
ترجمان نے کہا کہ اندرون بلوچستان مختلف زونوں نے ریفرنسز کا انعقاد کیا جبکہ بیرون ملک جنوبی کوریا، یونان، برطانیہ اور جرمنی میں مظاہرے کئے اورآگاہی مہم چلایا گیا۔ مظاہروں میں شرکا نے پمفلٹ تقسیم کئے اور بلوچستان کی آزادی کے لئے نعرے لگائے۔ ان ممالک میں احتجاجی مظاہروں میں مقامی لوگوں نے خاصی طرح دلچسپی لی اور معلومات حاصل کیں۔
بی این ایم کے خارجہ سیکریٹری حمل حیدر بلوچ نے لندن کیمپین کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ستائیس مارچ 1948 کو بلوچستان پر جبری قبضہ کیا گیا تھا جس کے خلاف بلوچ قوم روز اوّل سے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ بی این ایم یوکے زون کے نائب صدر حسن دوست بلوچ نے کہا کہ ستائیس مارچ کو بلوچ قوم یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ اس دن بلوچستان پر جبری قبضہ کیا گیا ہے۔ بی این ایم بلوچ قومی آزادی کی بحالی کیلئے جدوجہد کررہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ستائیس مارچ کے حوالے سے منعقدہ ایک سیمینار سے پارٹی کے خاتون نمائندے محترمہ صدف بلوچ نے شرکت کرکے پارٹی موقف کی ترجمانی کی۔
ترجمان نے کہا جنوبی کوریا کے شہر سمیون، یونان کے شہر ایتھنز، برطانیہ کے شہر لندن میں آکسفورڈ اسٹریٹ اور بی بی سی ورلڈ سروس کے سامنے پارٹی کارکنوں نے منظم انداز میں آگاہی مہم چلائی۔ مقامی لوگوں میں لیفلیٹ تقسیم کئے۔ شرکا نے بلوچستان پر پاکستانی قبضہ اور اس کے بعد بلوچ قوم پر ہونے والی مظالم اور بلوچستان سمیت پورے خطے میں پاکستان کی دہشت گردا نہ پالیسیوں کے بارے میں آگاہی دی۔
ترجمان نے کہا کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں افغان نوین ریسرچ اینڈ اسٹیڈیز آرگنائزیشن، بلوچ شوریٰ اور بلوچ قوم کے ہمدردوں کی اشتراک سے منعقدہ ایک بڑے سمینار سے بلوچ نیشنل موومنٹ کے خاتون نمائندے محترمہ صدف بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہوں گے کہ بلوچ اور افغان ملت صدیوں سے اچھے دوست اور ہمسائے ہیں۔ ہمارا یہ رشتہ آج بھی برقرار ہے اور بلوچ اس عظیم رشتے پر ہمیشہ فخر کا اظہار کرتے ہیں۔
محترمہ صدف بلوچ نے کہا کہ آج ستائیس مارچ ہے آج کے دن 1948کو پاکستان نے ہماری آزاد وطن پر قبضہ کیا۔ اس لئے آج بلوچستان اور دنیا بھر میں یوم سیاہ منارہے ہیں۔ اس دن کی اہمیت کو واضح کررہے ہیں۔ میں اس امید کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوں کہ عظیم برادر افغان ریاست اس قبضے اور حملے کی مذمت کریں گے۔ ہمارا ہمسائگی اور برادرانہ تعلق صدیوں پر محیط ہے۔ تاریخ کے مختلف مشکل مرحلوں میں یہ برادر اقوام ایک دوسرے کی مددکرتے آئے ہیں اور آج ایک بار پھر ان برادر اقوام کو دہشت گردی اور بیرونی مداخلت کا سامنا ہے۔،ہمیں مشترکہ دشمن کا سامنا ہے، ہمیں ایک ایسے دشمن کا سامنا ہے جو انسانی شرف و اقدار کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ بخوبی واقف ہوں گے کہ بلوچ قوم اپنی حریت پسندی، بہادری، مہمان نوازی، ایفائے عہد، سیکولر اور مذہبی رواداری جیسے اقدار اور اوصاف کیلئے جانا جاتا ہے اور بلوچ قوم اپنے جذبہ حریت پسندی کی وجہ سے تاریخ میں ہمیشہ بیرونی قبضہ گیروں اور توسیع پسندوں کا مزاحمت کرتا رہا ہے۔ سکندراعظم کی لشکر، ایرانی بادشاہوں کی افواج، عرب،منگول اور سنٹرل ایشیا ئی ترک مہم جوؤں کے خلاف بلوچ قوم کے مزاحمت کے واقعات ہماری قومی تاریخ کا قابل فخر اورشاندار باب ہیں۔ یہی جذبہ حریت پسندی ہے جس کی وجہ سے بلوچستان کبھی بھی بیرونی بالادست قبضہ گیر کیلئے تر نوالہ نہیں رہاہے۔ جب انگریزوں نے افغانستان پر قبضے کے لئے لشکر کشی کی تو افغانستان پر حملے اور قبضے کے لئے بلوچستان حائل تھا۔ جب برطانیہ نے افغانستان پر لشکر کشی کا آغاز کیا تو درہ بولان سے جانے والے برطانوی فوج کو بلوچ قوم کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور اس مزاحمت میں برطانوی فوج کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچاتھا۔ یہی حملے بلوچستان پر قبضے کا فوری سبب بن گئے۔ جب برطانوی فوج نے افغانستان پر واپسی پر میجر ولشائر کی سربراہی میں 13 نومبر 1839کو بلوچستان کے دارالحکومت قلات پر بڑا حملہ کردیا لیکن بلوچستان کے حکمران میر محراب خان نے برطانوی سپاہ کے طاقت کے سامنے سر تسلیم خم ہونے کے بجائے مزاحمت کا باوقار راستہ اپنایا اور شہید ہوگئے۔ برطانیہ کی تما م حربوں کے باوجود بلوچستان 27مارچ 1948 ء تک اپنا وجود اور اقتداراعلیٰ بچانے میں کامیاب رہا۔لیکن برطانوی کی سازشوں سے ہندوستان کی تقسیم کا راہ ہموار ہوگیا اور انہیں اس خطے میں ایک کٹھ پتلی ریاست کی ضرورت تھی تاکہ مستقبل میں ان کے مفادات کا تحفظ ممکن ہو اوراس خطے میں انہیں جناح اور مسلم لیگ کی صورت میں وہ مہرے مل گئے تھے جن کا استعمال نہایت آسان اور کارگر ثابت ہوا۔ تاریخ گواہ ہے کہ برطانیہ کی سازشوں سے پاکستان نے بلوچ وطن پر قبضہ کیا۔ حالانکہ 4اگست1947کو ہندوستانی دارلحکومت دہلی میں بلوچ حاکم اور وائسرائے ہند کی صدارت میں بلوچ حاکم، مسلم لیگی قیادت مسٹر محمد علی جناح، نوابزادہ لیاقت علی خان کا ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی جس میں بلوچستان (ریاست قلات) کی آزادی اور برٹش بلوچستان کے بلوچ علاقوں کی واپسی کے معاملات زیر غور لائے گئے اوربلوچستان کو ہندوستانی ریاستوں سے الگ ایک آزاد ملک تسلیم کرلی۔
صدف بلوچ نے کہا 11اگست 1947ء کو بلوچستان کے حکمران خان قلات میر احمد یار خان نے ریاست قلات (بلوچستان) کی آزادی کا اعلان کردیا جس کی خبر آل انڈیا ریڈیو دہلی نے نشر کی اور دی نیویارک ٹائمز نے بھی اپنی 12اگست 1947کی اشاعت میں قلات کی آزادی کے خبرکو شائع کیا۔ بلوچستان کی اعلان آزادی کے چار روز بعد 15اگست 1947کو برطانیہ نے بھارت او رپاکستان کے نام سے برصغیر ہند میں دو ڈومینین ریاستیں قائم کی۔ خان قلات نے اصلاحات نافذکرکے برطانیہ کے طرزپر ملک میں دیوان عام اور دیوان خاص پر مشتمل دو ایوانی پارلیمنٹ بنایا اور ستمبر 1947 ء میں ریاست قلات کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ مستجار نیابتوں سمیت برٹش بلوچستان میں شامل تمام بلوچ علاقوں اور ڈیرہ جات کی واپسی کے معاملے پر پاکستان سے گفت و شنید کرنے کیلئے کراچی گئے لیکن پاکستان کے گورنر جنرل محمد علی جناح نے برطانیہ کی پس پردہ شہہ پرمذکورہ معاملات پر بات کرنے کے بجائے ریاست قلات کو پاکستان میں شامل کرنے پر زور دینے لگا تو اس صورتحال پر غور و خوض کے لئے ریاست قلات کی دیوان عام کا پہلا اجلاس 12سے 15دسمبر1947ء کو ڈھاڈر میں منعقد ہوا او ر ایوان نے اتفاق رائے سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تجویز کو مسترد کیا۔ 4جنوری 1948 کو ڈھاڈر میں ہی دیوان خاص نے بھی اپنے اجلاس میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی تجویز کو رد کردیا۔27فروری 1948کو اپنے دوسرے اجلاس میں بھی قلات کی پارلیمان نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تجویز کو قبول نہیں کیا۔
27 مارچ 1948کو پاکستان نے بلوچستان پر فوج کشی کرکے قبضہ کرلیالیکن بلوچ قوم نے پاکستان کے اس جارحیت کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور وہ مزاحمت آج ایک شاندار قومی تحریک کی صورت میں جاری ہے۔
بلوچ نے کسی بھی مرحلے پر پاکستان کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیاہے، اس جنگ میں بلوچ نے بیش قمیت قربانیاں پیش کی ہیں اور قربانیوں کا یہ سفر آج بھی جاری ہے۔
انہوں نے سیمینا ر کے سامنے سوال رکھتے ہوئے کہا کہ دوستو آج میں اس وقار مجلس کے سامنے چند سوال رکھتا ہوں اور وہ یہ کہ کیا پاکستان صرف بلوچ قوم کا دشمن ہے؟ کیا پاکستان کی شرپسندی اور توسیعی عزائم سے برادر افغان ملک محفوظ ہے؟ کیا افغانستان کی موجود صورت حال کا پاکستان ذمہ دار ہے؟
بلوچ نیشنل موومنٹ کے نمائندے نے کہا بلوچ یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان نہ صرف بلوچ وطن پر قابض اور بلوچ دشمن ہے بلکہ ہمسایہ ممالک سمیت پوری انسانیت کا دشمن ہے اور دنیا بھرمیں جہاں بھی دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں اس کے تانے بانے پاکستان سے ملتے ہیں اور پاکستان کی وجہ سے پورے خطے میں آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔ آج ہمیں مشترکہ دشمن کا سامنا ہے۔ بلوچ گزشتہ ستر سال سے اس دشمن کے خلاف صف آرا ہے۔ آج ہمیں آپ کے سیاسی و سفارتی و اخلاقی امداد کی ضرورت ہے۔ ہمیں مشترکہ محاذ کی ضرورت ہے آپ آزاد و خودمختیار ریاست کے مالک ہیں اور ہم بلوچ ریاست سے محروم ایک مقبوضہ قوم ہیں لیکن ہم اپنی قوت و بساط کے مطابق لڑرہے ہیں۔
آج میں واضح کردوں کہ اس خطے میں امن و سلامتی اور پائیدار ترقی کی راہیں آزاد بلوچستان سے نکلتی ہیں۔ افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک جس صورت حال سے دوچار ہیں، یہ کسی غیبی قوت کی کارستانی نہیں بلکہ گزشتہ چار دہائیوں سے پاکستان سے افغانستان میں مداخلت کھلی کتاب کی مانند ہے،یہ پاکستان کی طویل المدتی پالیسیوں کے خونی ثمرات ہیں پاکستان کے فوج اور مقتدرہ کا طویل المدتی پالیسیاں واضح ہیں اور وہ افغانستان کو ایک ملک نہیں بلکہ اندورن خانہ اپنا پانچواں صوبے کی طرح اپنے زیر نگین رکھنا چاہتے ہیں تاکہ افغان قوم میں یہ سکت باقی نہ رہے کہ آپ افغانوں کو تقسیم کرنے والے ڈیورنڈ لائن جیسے خونی لکیر کو اپنا مقدرتسلیم کرلیں یا افغانوں میں پاکستان کے شیطانی منصوبوں کے خلاف مزاحمت کی قوت باقی نہ رہے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا کہ بلوچ قوم ہر سال ستائیس مارچ کو یوم سیاہ مناتی ہے کیونکہ اسی دن پاکستانی افواج نے یلغار کرکے بلوچ قوم کی مرضی و منشا کے برخلاف آزاد اور خود مختار بلوچستان پر 1948 میں قبضہ کیا۔ پاکستان کی کالونی بن کر ہم اپنی شناخت سے محروم ہوگئے۔ ہم سے نہ صرف ہماری سرزمین چھن گئی بلکہ پاکستان نے قبضہ کرتے ہی مظالم شروع کئے۔ سات دہائیوں میں پانچ فوجی آپریشن کئے گئے ہیں۔ پانچواں فوجی آپریشن جنرل مشرف کا اقتدار سنبھالنے کی بعد شروع ہوئی جو ہنوذ جاری جسے دو دہائی مکمل ہونے کو ہیں۔ بلوچستان کے تعلیمی اداروں پر فوجیوں نے قبضہ کرکے کیمپ اور چوکیوں میں تبدیل کی ہے۔ طلبا پر تعلیم کے دروازے مکمل طور پر بند کئے گئے ہیں۔ کئی طلبا کو حراست کے نام پر گمشدہ اور لاپتہ رکھا گیا ہے جن کی سالوں سے کوئی خبر نہیں۔ اسی طرح بلوچ آزادی پسندوں پر ہر قسم کی سرگرمی کی پابندی عائد ہے اورپاکستان نے اپنے افواج کو سیاسی ورکروں اور آزادی پسند بلوچوں کوغیر اعلانیہ شوٹ کرنے کی ہدایت اور اجازت دی گئی ہے کہ اسی وجہ ہزاروں بلوچ دوسرے ملکوں میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں اور وہاں اپنی قومی ذمہ داریاں بھی نبھا رہے ہیں۔