بلوچ کلچر، جمود یا جدت؟
تحریر۔ عدید
دی بلوچستان پوسٹ
کچھ دنوں سے بلوچ کلچر ڈے کے اتار چڑھاو، اوصاف اور تسلسل کے بارے میں مختلف مکالمے اور مفاہمت کے لیئے پیغامات کی یلغار سوشل میڈیا پر عالمگیریت اختیار کی ہوئی ہیں، اس ابلاغ سے میرے ذہن میں جگہ جگہ پر لفظوں کا آپس میں جھگڑاشروع ھوا۔ اب میرے لیئے کلچر کا مسئلہ زندگی میں نئے معنی تلاش کرنے کا مسئلہ ہے، زندگی میں نئے معنی تلاش کرنے کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے، جب کسی کلچر کی وحدت اور اس کا نظام، خیال زندگی میں معنویت پیدا کرنے سے قاصر ھوجاتاہے اور تہذیبی رشتے ایک دوسرے سے بے تعلق ہوکر تیلیوں کی طرح بکھر نے لگتے ہیں لیکن ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ کوئی کلچر تخلیقی امکانات میں لامحدود نہیں ہوتا، اس کی ہر دم نئی زندگی کے لیئے تبدیلی کا عمل جاری رہنا اور نیا خون اس کی رگوں میں داخل ہوتے رہنا ضروری ہے، جب تک کسی کلچر کے بنیادی ادارے تہذیب،اخلاق، سیاست وغیرہ زمانے کے تقاضوں کے ساتھ بدلتے رہتےہیں وہ کلچر زندہ محترک رہتاہے لیکن جب وہ ایک شکل پر قائم ھوکر ہمیشہ کے لیے ٹہر جاتے ہیں تو کلچر منجمد ہونے لگتی ہے۔
اسی طرح بلوچستان میں بعض خانہ بدوش بلوچ قبیلوں کی سماجی قدروں کی بنیاد شرکت پر قائم ہے، شرکت سے مراد یہ ہے کہ قبیلہ افراد کے اثاثے پر ہر شخص کا مساوی حق ہوتا ہے، مثال کے طور پر ایک خاندان کے پاس نمک یا آٹا ختم ہوجائے تو وہ دوسرے خیمے سے یہ چیزیں لے آسکتا ہے، اس کو خیمے والے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ھوتی اور نہ ہی ان چیزوں کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، یہ سچ ہے کہ ہر عہد میں چھوٹے خریداروں کی شکایات دنیا میں ہر جگہ سننے میں ملتی ہیں، یہ تعبیر ان لوگوں کو بالکل پسند نہیں آئے گی بلکہ انھیں تکلیف پہنچائے گی، جو ہمارے جغرافیائی ثقافتی، شناخت یا ایتھنک شناخت کو دبا کر یا اس کی نفی کرکے صرف بڑی شناخت یعنی کہ سیاسی قومی شناخت پر زرو دیتے ہیں۔
میرے استدلال کو تقویت اس پوائنٹ سے بھی مل سکتی ہے کہ ہمارے سیاسی، قومی، تہذیبی، کلچر زندگی کے بعض ٹھوس مادی حقیقتوں اور سچائیوں سے آنکھیں چراتے ہیں۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھ کر کلچر کا ایک اہم حصہ زبان، ادب، رویوں، رسم و رواج اور ان کی اپنی تاریخ میں کہاں سے الگ کرینگے؟ اس سوال کے بعد مسئلہ پیچیدہ ہے، اگر ہم ریاستی سوشلزم میں نئے کلچر کی زبان زد عام مفروضے کا کوئی سیدھا,جواب تلاش کریں تو گلوبلائزیشن نے کچھڑی قومی ریاست کے اختیار کو کم کردیا ہے، آج کچھ ایسے افراد جو خود کو دانشور سمجھتے ہیں وہ بجائے نظریاتی تعریفوں کا روایتی تعریفیں طبقاتی ٹکراو سے کررہے ہیں۔ اس موقع پرستی سے دشمن وسیع پیمانے کا لامحدود نتیجہ خیز پروپیگینڈہ براہوئی کلچر,کے,نام سے کررہےہیں جو کہ ایسے وعدوں کو وفا کرسکتاہے جن سے مقامی لوگ اپنے رواجوں اور کلچر سے خود دفاعی گشت نفرت کرینگے کیونکہ چین و عرب اور ہندوستان اسلام میں اکر بھی یک رنگ نہیں ہوسکے، اب تک کی ساری بحث میں ہم تصور حقیقت اور تصور جمال کے سلسلے میں چند بنیادی وضاحتیں کر آئے۔
میرے انسانی عقل، نورِ ظہور، ایبونک تنقید, کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سمجھتاہے کہ یہ تنقیدی عمل ہمارے دونوں زبان کو لچر زبان کا درجہ دے چکے ہیں۔ براہوئی اور بلوچی زبان وہ زبانیں ہیں جوکہ کوچہ، چوک، گلیوں میں بولا جاتاہے جن کاکوئی قومی حیثیت نا ماضی میں تھا,نہ اب ہے اور نہ مستقبل میں رہےگا۔ سرکاری طور پر نا خان قلات نے بحثیت بلوچ ریاست میں ان زبانوں کو استعمال کیا نا اب پاکستان ان زبانوں کو وہ درجہ دیگا، جن سے انکی افزائش ہو. جب کوئی زبان سرد جنگوں میں ٹھٹھر کر پر مر رہا ہو، تو کیا انقلابی، سماجی تبدیلی کا ڈھول پیٹنے والے اپنے نئے کلچر اور نئے خیالات کاتشریح کس نظریئے سے کرینگے؟
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔