“بلوچ پولیٹیکس”
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ سیاست کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ سیاست کے بنیادی مقصد و مطلب کو سمجھ کر سوچ و بچار کرکے بلوچ سیاست کے ماضی اور حال کا جائزہ لیں تو مستقبل کے سیاسی صورت حال کی پیشن گوئی کی جاسکتی ہے۔ عروج و زوال اور پھر عروج، انسانی زندگی سے لیکر سماج اور قومی زندگی میں تبدیلی کا تغیر پذیر ہونا زمانے کی ضرورت ہوتی ہے، اسکے بنا زندگی موت ہوتی ہے۔ شعوری کوششوں نے انسانی دماغ کو جدید علوم کو جنم دینے کے قابل بنا دیا ہے۔ سیاست کے قوم پرست نظریئے کے مطابق تعریف بیان ہو تو” سیاست کسی ریاست، قوم، گروہ، جماعت کی بنائی گئی اس پالیسی کو کہا جا سکتا ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف قومی مفادات کی حصول و با لا دستی کو یقینی بنانا ہوتا ہے”۔ سیاست کئی طرح کی ہو سکتی ہے، مثال کے طور پر قومی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے، قومی حقوق اور قومی اقدار و مفادات کے تحفظ کے لیئے، سیاسی و جمہوری روایات کے تحفظ کے لیئے سیاست کی جاتی ہے۔
بلوچ قومی تاریخ میں اگر سیاسی نظام اور اس سے جڑے اقدار کا جائزہ لیں تو منظم طور پر پہلی بار ریاست قلات کے خان نوری نصیر خان نے موثر سیاسی اقدامات کرکے بلوچ وحدت کو مظبوط و منظم کیا۔ جس میں ریاستی امور کو اندرونی اور بیرونی طور پر قانونی شکل دی گئی، ریاست کی رعایا اور عوام کی ریاست کیلئے خدمات کو شکل دی گئی۔ ریاست کے دفاع اور معاشی ضروریات کیلیے منصوبہ بندی کی گئی۔ یہ وہ مثبت اور کامیاب سیاسی فیصلے تھے جنہوں نے بلوچ قومی ریاست کو دنیا کے نقشے پر جدید ریاستوں کےصفوں میں لا کھڑا کیا۔ خان نصیر خان کے دور حکومت میں اگر ہم بلوچ قومی ریاست کی کمزوریوں اور زبوں حالی کا جائزہ لیں۔ تو ان اقدامات میں دو اہم کمی و کمزوریوں پر نظر پڑتی ہے۔ ایک نیشنل ازم کی بنیاد پر قائم ریاست میں نیشنل ازم کی بنیادوں کو مزید مظبوط و مربوط کرنے کیلئے کوئی خاص اقدامات نہیں کیئے گئے۔ فارسی اور عربی کو بلوچی و براہوئی زبان پر اہمیت و فوقیت دی گئی۔ جس سے ریاستی امور کمزوری کا شکار ہوئے۔ دوسری سب سے بڑی سیاسی غلطی مذہب کو ریاستی و سماجی نظام میں مداخت کی اجازت دی گئی جسکے انتہائی مضر اثرات مرتب ہوئے (پاکستان سے جبری الحاق کے وقت خان احمد یار خان کا یہ کہنا کہ اس نے خواب دیکھ کر بلوچ قوم کی آزادی کو گروی رکھ دیا ہے) اس وقت مذہبی مداخلت کی بنیاد پر فیصلوں نے بلوچستان اور نقصانات آج تک سماجی و قومی زبوں حالی کے ذمہ دار ہیں۔
بلوچ سیاست کو مزید تفصیل سے جاننے کیلئے ضروری ہے کہ سماج میں متحرک سیاست سے منسلک خیالات و نظریات کو پرکھیں، انکے مناسب گروپ بندی کریں، تاکہ بلوچ سیاست کو بہتر طور پر سمجھنے میں آسانی ہو۔ بلوچ سیاست ہمیشہ ہمسائیوں پر انحصاری سیاست کا مرکب رہی ہے، جسکی وجہ سے اسکو مظبوط بنیادیں مہیا نہیں ہو پائی ہیں۔ جدیدت اور پروگریسو نظریات کے پیچے بھاگنے کی وجہ سے نیشنل ازم کی بنیادی روح کو زک پہنچتی رہی ہے۔ کھبی روس ماڈل، کھبی یورپی جموریت تو کھبی سعودی شریعتی نظام کے چکر میں قومی سیاست، مشکلات اور رکاوٹوں کا شکار رہی ہے جو ہنوز جاری ہے۔
قوم پرستی کی بنیادوں پر قومی تشکیل کو یکسر نظر اندازی کا سامنا ہے، خطہ میں سب سے بڑی جغرافیہ کے مالک اور سب سے کم آبادی کے باوجود ، تقسیم در تقسیم کی بنیاد پر سینکڑوں فرسودہ نظریات بلوچ قومی سیاست کو پراگندہ کررہی ہیں۔ قبضہ گیر ریاست کی وفاقی جماعتوں، بنیاد پرست مذہبی اور سوشلسٹ وفاقی پارٹیاں، بلوچ قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کا موجب بن رہی ہیں۔ پارلیمانی اور غیر پارلیمانی سیاست و نظریہ قومی تقسیم کی وجوہات میں سے اہم مسئلہ ہے۔ خود آزادی پسند سیاست و مزاحمتی سیاست میں اداراتی و غیر اداراتی بنیاد پر تقسیم بلوچ وطن کے سینے کو چھلنی کررہی ہے۔
جدید دنیاء کی تاریخ کی ابتداء صنعتی انقلاب کے بعد شروع ہوتی ہے، جس کو انقلاب فرانس کے نام سے یاد کی جاتی ہے، اس انقلاب کے بعد انسان اور ریاستوں نے دن دگنی، رات چوگنی ترقی کی، ریاستی امور میں اضافہ ہوا تو سیاست کو باقائدہ نظام تعلیم کا حصہ بنایا دیا گیا، جسکو سیاسیات کہا جاتا ہے۔ جس میں تفصیلاً سیاسی رموز بیان کی گئی ہیں۔ بلوچ قومی رہنماء دنیاء میں ترقی کی رفتار کو اپنے قومی مفادات کے حق میں موڑنے میں ناکام رہے، جدید سائنسی علوم کے بجائے دینی علوم حاصل کرنے کو آخرت میں کامیابی کا نام دیکر ریاست، سماج اور قوم کے رخ کو جانے انجانے میں قبلے کی جانب موڑ دی گئی۔ آج بھی قابض ریاست مذہب کو ہتھیار کے طور پر بلوچ قوم کے خلاف استعمال کررہی ہے۔ بلوچ لیڈر شپ قومی سیاست کو نیشنل ازم کی بنیاد پر ایک مظبوط رخ دینے میں ناکام رہی ہے، بلکہ سیاسی بصریت سے عاری رہ کر قومی سیاست کو تقسیم کا شکار بناتی رہی ہے۔ سیاسی ادارے کبھی پنپ نہیں پائے ہیں، ذاتی مفادات کیلئے مسلسل توڑ پھوڑ کی وجہ سے کوئی بھی سیاسی ادارہ اپنے بلوغت کو نہیں پہنچ پاتی، جس سے سیاسی کارکن و جہد کار نامکمل تربیتی عمل سے گذرتی ہیں۔ جو مایوسی اور انتشار کو جنم دیتی ہیں۔
بلوچ پولیٹکس کی وضع کو مکمل طور پر کامیابی سے ہمکنار کرنے اور سیاست کو قوم پرست نظریہ و عمل سے جوڑنے کیلئے ضروری ہے کہ بلوچ سیاسی رہنماء، سیاسی تنظیمیں، بلوچ دانشور، ادیب شعراء بلوچ سیاست کی بنیاد کو نیشنل ازم کے خطوط پر استوار کرنے کیلئے سر جوڑ کر بیٹھیں۔ کوئی بھی قوم پرست فرد، گروہ، تنظیم وفاق اور بلوچ وطن کی سیاست کے دو کشتیوں میں سواری کی بجائے خالصتاً نیشنل ازم کی سیاست کو اپنائیں تاکہ قومی مقصد اور احداف کو حاصل کرکے قومی دفاع کو مستقبل میں ممکن بنایا جاسکے۔ بلوچ سیاست کی مستقبل نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہے اسکے روشن و کامیابی کے قوی امکانات موجود ہیں، نظریاتی سیاست متواتر تبدیلوں کے دورانیئے سے گذر رہی ہے۔ سیاست کو نیشنل ازم کی سیاسی و نظریاتی رخ کی ضرورت ہے۔
نوٹ: یہاں پر واضح ہو کہ سیاست اور مذہب کو کھبی یکجاء نہ کی جاۓ تاکہ ہزاروں سالوں سے جاری مذہب کے نام پر سیاست کے نتیجے میں ہونے والے خونی جنگوں کا خاتمہ ہوسکے”۔ مذہب کو ریاستی اور قومی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہ دی جاۓ تاکہ قومی تقسیم اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے جیسی غیر صحت مند سماجی و سیاسی رویوں کی بیخ کنی ممکن ہوسکے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔