بلوچ قوم کا تعلیمی نظام – نادر بلوچ

285

بلوچ قوم کا تعلیمی نظام

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

نوآبادیاتی نظام کبھی بھی محکوم قوم کو ذہنی اور فکری نشو نماء کیلئے علم دینے کی کوشش نہیں کرتی، جو قومی سوچ اور قابلیت کو اجاگر و پرورش کرنے کا موجب بن سکے۔بلکہ حاکم ایسی تعلیمی نظام کو لاگو کرتی ہے جو فکر و سوچ کو غلامی اور تعبیداری سکھائے۔بلوچستان جو سالہا سال انگریز سامراج کے زیر نگین رہی ہے، انگریز دور میں بھی بلوچ قوم کو سائنسی تعلیم تک پہنچنے نہیں دیا گیا، بلکہ انگریز صرف اور صرف بلوچ سرزمین کی معدنیات کی لوٹ کسوٹ کیلئے راہ ہموار کرنے کے منصوبوں پر عمل پیرا رہا۔ بلوچ وطن، فرنگیوں کی بلوچ سرزمین سے انخلاء کے بعد مختصر آزادی کے بعد 27 مارچ 1948 سے پاکستانی قبضہ گیریت کا شکار رہی ہے۔ قبضہ گیریت کے اثرات کا بلوچ تعلیمی نظام پر بہت برے اور گہرے اثرت مرتب ہوئے ہیں۔ صدیوں سے جاری دور غلامی سے بلوچ قوم کی تخلیقی صلاحیتوں پر کاری ضربیں لگائی گئی ہیں۔بلوچ قوم کو مہیاء کی گئی تعلیمی نظام خالصتاً عقل و دانش اور تحقیق و تنقید سے بیگانہ کرنے کی غرض سے ترتیب دی گئی ہے۔ یہ نظام انسانوں کے بجائے گدھے پیدا کرنے کی جتن کرتی ہے، تحقیق، تجربہ، سوچ و فکر، کی بجائے مفلوج، لالچ و غلاموں کا ایک ایساء طبقہ تیار کررہی ہے جو خود پسندی، خود غرضی کی وجہ سے وطن کو بھی فروخت کرنے پر تیار ہیں۔ ان میں قوم دوستی، وطن دوستی اور قومی شناخت جیسی بنیادی اساس سے بیگانگی پیدا کی جاتی ہے جنکی وجہ سے ان میں قوم پرستی کا فقدان رہتا ہے۔

غلام ابنِ غلام کی سامراجی نصاب نے بلوچ قوم کی استصحال میں قابض قوتوں کی کلیدی مدد کی ہے۔ تعلیمی اداروں میں بزور طاقت وفاقی طور پر رائج زبانوں میں تعلیم دینے کا مقصد مادری زبانوں کو ختم کرکے بلوچ قوم کی تخلیقی صلاحیتوں کو بانجھ کرنا مقصود ہے۔ ریاست اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکی ہے، بلوچستان میں اعلی تعلیم کے 04 یونیورسٹیاں ہیں جو پنجابی غلامی کے ان 72 سالوں میں بنائی گئی ہیں۔ جن میں سے 03 گذشتہ 20 سال میں بنی ہیں۔ یعنی 50 سالوں تک صرف ایک یونیورسٹی بلوچ نوجوانوں کو سرکاری تعلیم دیتی رہی ہے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والوں کو انگلیوں پر گنا جاتا ہے۔ وہ بھی اس متل کی طرح ہیں جہاں کانوں کو اندھوں کا راجہ پکارا گیا ہے۔ پی ایچ ڈی اور ماسٹرز کرنے والوں میں بہت کم اپنی سماجی اہمیت، قومی ذمہ داریوں، اور سماج کی ترقی میں اپنی حیثیت سے آگاہ ہیں، دیگر سرکاری تنخواہ کو مال غنیمت سمجھ کر ریٹائرمنٹ سے گمنام موت تک سرکاری کوارٹرز میں زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں۔سرکار کو ایسی ہی عوام چاہیئے جو بے شعور و بے عمل عالم بن کر زندگی گذاریں۔

بلوچوں کی نوئے فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے، جن کا گذر بسر کھیتی باڑی، زراعت اور جانور پالنے سے ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں اسکول نہ ہونے کے برابر ہیں. 13000 ہزار پرائمری سرکاری اسکولوں کیلئے صرف 59000 ہزار اساتذہ ہیں۔گھوسٹ اساتذہ کی تعداد 14000 ہے جو اسکول پڑھانے کیلئے آنے کی زحمت نہیں کرتے۔ 3500 اسکول گھوسٹ اسکول ہیں جنکی نہ عمارت ہیں نہ اساتذہ جو بچوں کو تعلیم دیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اوسطاً ہر 20 کلیومیڑ پر ایک پرائمری اسکول واقع ہے۔ 2000 ہزار اسکول ایسے ہیں جو جھونپڑیوں اور درختوں کے سایے میں قائم ہیں۔ لڑکیوں کے اسکول آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہیں %75 لڑکیاں اسکول سے باہر ہیں۔ فوجی آپریشنوں کی زد میں آنے والی اسکولوں و کالجوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ چکی ہیں، جن میں پاکستانی فوجیوں کی رہائش گاہیں ہیں۔ بندوق کے زیر سایہ تعلیم حاصل کرنے سے کئی بچے اسکول چھوڑ چکے ہیں، باقی ماندہ اساتذہ اور بچے کسی بھی حادثہ و حملہ ہونے کی وجہ سے خوف میں مبتلاء ہیں۔ ریاست کی قبضہ گیریت کو دوام دینے کی پالیسیوں کی بدولت امن و امان کی صورتحال پیداء ہونے کی سبب اعلی تعلیم سے وابستہ سینکڑوں phd کی قابل اساتذہ بلوچستان کو خیر باد کہہ چکی ہیں۔

زراعت و گلہ بانی بلوچستان کی قومی معیشت میں ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے لیکن سرکاری سرپرستی میں بلوچستان کے میدانی علاقوں کے پانی کا رخ پنجاب اور سندھ کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ جدید زرعی تعلیم پانی کی بچت کا ایک موثر نظام کا درس دیتی ہے لیکن بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ اراضی بنجر ہوچکی ہیں۔ ایگریکلچر کالج ایک ہے جس میں جدید سائنسی علوم سے استفادے کیلئے کوئی خاص پروگرام نہیں، تحقیق و تجربے کی کمی کی وجہ سے طلباء فارغ و التحصیل ہونے کے باوجود زراعت کی ترقی میں کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔خطے میں ریاستی دہشتگردی کی پالیسیوں نے بلوچ قوم سے علم و ہنر چھین لی ہے۔ آج قومی زبانوں میں سائنس اور تجربات پر مبنی کتب ناپید ہیں۔ یہاں سرکاری سرپرستی میں پرندوں کی شکار سے لیکر انسانوں کے قتل عام کے تمام اوزار بازار سے بارعایت دستیاب ہیں مگر پنکھا بجلی سے کیسے چلتی ہے؟ بلب سے روشنی کیوں پھوٹتی ہے؟ سورج اور زمین میں فرق کیا ہے؟ بلکہ سوچنے و سمجھنے کی تکنیکی ایجادات و علم ناپید ہیں۔ مادری زبانوں میں تعلیم پر پابندی عائد ہے۔ جس سے تعلیمی نظام سے بیگانگی برقرار ہے۔

منظم کاوشوں اور مسلسل سماجی، سیاسی خدمات نہ ہونے کے سبب بلوچ سماج تعلیمی بدحالی و تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ فرد سے لیکر قومی سیاسی و سماجی اداروں تک تعلیم کی اہمیت اور اس حوالے سے منظم و مربوط کارکردگی و کاوش کیلئے تعلیمی سلیبس کی تشکیل کی کوئی پالیسی موجود نہیں۔پارلیمانی جماعتیں قومی غلامی کو طول دینے والی نام نہاد پارلیمانی و جمہوری نظام کیلئے شناختی کارڈ اور انتخابی فہرستیں بنوانے کیلیے ٹاسک فورس و ٹیم تشکیل دیتے ہیں لیکن جدید تعلیمی نظام و قومی زبانوں میں تعلیم اور تکنیکی اداروں کیلئے اقدامات سے غافل ہیں۔ عربی زبان میں تعلیم نے ماسوائے وضو اور نماز کے طریقوں کے سماجی ترقی میں کوئی کردار ادا کرنے کے حامل و قابل نہیں ہیں، مگر پھر بھی خیر و خیرات کے حقدار ٹہرتی ہیں۔

غلامی کے شکار اقوام کو تعلیم کا بیڑہ خود اٹھانا پڑتا ہے۔ قوم تعلیم و ہنر کو پھیلانے کیلئے مشترکہ و شعوری کوششوں کا آغاز کرتی ہیں۔ کسان، دہقان، مستری، ڈاکٹر، انجینئر، اساتذہ اپنے شعبوں میں قوم کے نوجوانوں کو علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ سرکاری بندشوں کے باوجود میڈیکل، انجینیرنگ اور بنیادی سائنسی علوم اور معاشرتی علوم کو قومی زبانوں میں ترجمہ کیا جانا چاہئیے اس سے علمی اور ادبی ترقی ہوگی۔ جدید تعلیمی نظام پر مشتمل تعلیمی اداروں کی تشکیل کی جانی چاہئے ۔ قوم پرست سوچ سے سرشار اساتذہ، کسان، ڈاکڑر اور انجینئرز کو بھی ادبی و سائنسی خدمات سر انجام دینے کیلئے قومی سوچ سمیت قومی کردار کو وسیع و باشعور عمل کرنے کی ترغیب دی جائے تو وہ بخوشی اس کو منظم انداز میں کامیابی سے ہمکنار کر پائیں گے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔