بلوچی زبان کا مستقبل
تحریر: لطیف سخی
دی بلوچستان پوسٹ
سب سے پہلے ہم بات کرتے ہیں زبان کے حوالے سے اور ان قوموں کی جو آج کل دنیا پر راج کرتے آرہے ہیں، اور وه دنیا کے اندر زندہ قوم کی حیثیت سے ابهر کر سامنے آ رہے ہیں، آیا ان میں کوئی قدرتی راز ہے یا ان کی جدو جہد کا ثمر ہے؟
دراصل زبان زندہ قوموں کی پہچان ہے، شناخت ہے، زبان کے بغیر قومیں زندہ لاش کی مانند ہوتی ہیں، اگر کسی قوم کو اپنی زبان، پہچان، کلچر ہوگی، اور دوسرے اقوام کی طرح انکی ثقافت نمودار ہوگی تو وه قوم دنیا کے اندر اپنی شناخت کو برقرار رکھ سکتی ہیں۔
ایک دانشور کا قول ہے۔
A nation cannot exist without its own language.
ایک قوم اپنی زبان کے بغیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتا۔ ہر قوم کو اللہ تعالی نے ایک کلچر و زبان بخشی ہے۔
آج میرا موضوع یوں ہے کہ بلوچی زبان تاریخ کے لحاظ سے ایک قدیم زبان ہے اور اس میں کئی علاقائی لہجے بولی جاتی ہیں مثلاً کوہ سلیمانی بلوچی، مکرانی بلوچی اور رخشانی لہجے قابل ذکر ہیں۔
ہاں ایک بات یہ ہے، اکثر جنرل ڈسکشن میں لوگ یہ کہتے ہیں کہ مکرانی لہجے میں اس چیز کے نام کا تلفظ اسطرح ادا کیا جاتا ہے اور اس طرح علاقائی لہجے میں تهوڈا فرق آتا ہے مگر الفاظ ایک جیسے ہوتے ہیں۔
یہ بات تو صحیح لیکن بد بختی سے بہت سے تعلیم یافتہ لوگ اپنے زبان میں انگریزی اور اردو کے الفاظ کی ملاوٹ کرکے اپنے آپکو تعلیم یافتہ اور شعور یافتہ دکهانے کی کوشش کرتے ہیں جو کہ اپنی زبان کو اپنے ہی ہاتهوں سے مٹانے کے مترادف ہے، اور اس لحاظ سے قومی زبانیں مٹ جاتی ہیں، جب انکے تعلیم یافتہ لوگ دوسرے زبان کے الفاظ کی ملاوٹ کرکے اپنی قابلیت سمجهیں، یہ فرض بنتا ہے کہ بلوچ نوجوان اپنی زبان کو پڑهیں، سمجهیں، اور بلوچی گرامر کو پڑھنے کیلئے مختلف بلوچی (لبز بلد ) ڈکشنری اور کتابوں کا مطالعہ کریں اور اپنی تحریریں شائع کریں تاکہ سوشل میڈیا کے اس دور میں ہم اپنے زبان کو سمجھیں تاکہ ہماری زبان مٹنے سے بچ سکے۔
اگر ہم انگلش، اردو اور دوسری زبانوں کو زیاده ٹائم دیتے ہیں تو بلوچی زبان کو ذرا ٹائم دیں کیونکہ بلوچی ہمارا مادری زبان ہے اس کو بھی تهوڑا آگے لے جانے کی کوشش کریں تاکہ ہم عالمی سطح تک اپنے زبان کو ایک قومی زبان منوا سکیں۔
اگر بلوچی زبان پر کام نہیں کیا گیا اور یہ پروسز چلتا رہا تو ہماری زبان (Red Indians ) کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔
بلوچی زبان دنیا میں وہ واحد زبان ہے جس میں دوسرے زبانیں اس زبان کے لفظوں کو اپنا لیتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ہم اس میں دوسرے زبان کے الفاظ کی ملاوٹیں کرتے ہیں۔
مثال بلو چی میں کہتے ہیں (بوت کنت)
لیکن اس میں شک کوئی بھی نہیں ہے لیکن پھر ہمارے کراچی کے بلوچ اور بعض مکرانی بلوچ اس کو تبدیل کرکے بلوچی میں اسے اردو کے ساتھ کہیں تشبیہ دیتے ہیں کہ (ہوسکتا ہے)۔ اسی طرح قوموں کی زبانیں نیست و نابود ہوتے ہیں۔
ظہور ہاشمی ابھی دوبارہ جنم نہیں لیگا، عطا بھی نہیں آئیگا، صباء اپنا فرض نبھا کر چل بسے، انہوں نے اس بوجھ کو اپنے نوجوان نسل کے اوپر ڈالا ہے اور اس میں ہمیں اپنا فرض نبھانا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔