بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ المیہ کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے – بی ایچ آر او

132

بارہ لاشیں لاوارث قرار دیکر دشت تیرہ مل میں بغیر ڈین اے کے دفنائی گئی جو انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے اور اس پر حکومت بلوچستان کی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کے سبب بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسلئہ ایک انسانی المیئے کو جنم دینے کا باعث بن چکا ہے۔

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے بلوچستان سے ملنے والی بارہ لاشوں کو لاوارث قرار دیکر دفنانے کے عمل کے خلاف بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بغیر ڈین اے ٹیسٹ کے بلوچستان سے ملنے والی لاشوں کو دفنانا حکومت بلوچستان کی لاپتہ افراد کے معاملے پر غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کو عیاں کرتی ہیں کیونکہ لاپتہ افراد کے بیشتر لواحقین کو خدشہ ہے کہ جن لاشوں کو لاوارث قرار دیکر دفنا جاتا ہے وہ ہمارے پیاروں کی لاشیں ہوسکتی ہیں جنہیں بغیر ڈی این اے کے دفنا کر حکومت اپنے فرائض سے غفلت برتنے کا مرتکب ہورہی ہیں۔

دو ہزار تیرہ کو خضدار کے علاقے توتک سے اجتماعی قبروں سے سو سے زائد بلوچ لاپتہ افراد کی لاشیں بر آمد ہوئیں ۔ اسی طرح پنجگور سے بھی ایک اجتماعی قبر سے چار افراد کی لاشیں بر آمد ہوئیں۔ اسی طرح بلوچستان کے مختلف علاقوں سے ایسے قبریں بھی دریافت ہوئیں ہیں جن سے ملنے والی لاشیں مِسنگ پرسنز کی لاشیں تھی۔

ترجمان نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ بلوچستان کے علاقے دشت تیرہ مل قبرستان میں سوسے زیادہ لوگوں کو لاوارث قرار دیکر دفنایا گیا ہے اور گذشتہ دنوں مزید بارہ لاشیں لاوارث قرار دیکر دشت تیرہ مل میں بغیر ڈین اے کے دفنائی گئی جو انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے اور اس پر حکومت بلوچستان کی غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کے سبب بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسلئہ ایک انسانی المیئے کو جنم دینے کا باعث بن چکا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاوارث لاشوں کی ڈی این اے کو لازمی قرار دیا تھا لیکن ابھی تک حکومت نے لاوارث لاشوں کے ڈی این اے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا۔ ایک طرف لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کے انتظار میں سراپا احتجاج ہیں اور دوسری طرف انہیں مِسنگ پرسنز کی لاشوں کو لاوارث قرار دیکر دفنایا جارہا ہے جو قابل مذمت عمل ہے۔

ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں سپریم کورٹ آف پاکستان، حکومت پاکستان اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے معاملے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کریں اور لاوارث قرار دینے والی لاشوں کا ڈی این اے کرواکر لاپتہ افراد کے لواحقین کے کرب کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔