بی ایس او پجار کے صوبائی انفارمیشن سیکٹری نعیم بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی عروج پر ہے تعلیمی ایمرجنسی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اگر بلوچستان میں تعلیم کا یہی حال ہو گا تو جہالت کا خاتمہ ناممکن ہے بلوچستان کے بیشتر سرکاری اسکول بند پڑے ہوئے ہیں بیشتر کو تو بااثر لوگوں نے اپنی بیٹھکوں میں تبدیل کردیا ہے اسکولوں کی عمارتیں خستہ حالی کا شکار بچوں کے بیٹھنے کے لئے کوئی فرنیچر موجود نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس جدید دور میں بھی بلوچستان میں بچے نیچے بیٹھ کر اپنی تعلیم حاصل کرنے پر مجبور بہت سے سرکاری اسکولوں کی تعمیر کے لئے فنڈز آئے تھے لیکن بدقسمتی کے ساتھ ان کا کام نامکمل ہے اور انکی رقم ہڑپ کی گئی ہے سرکاری اسکولوں کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں بدقسمتی کے ساتھ سرکاری اسکولوں میں تو بچوں کے پڑھنے کے لئے کتابیں تک نہیں کس طرح پڑھے گا بلوچستان کس طرح بڑھیگا بلوچستان یہ نعرہ صرف نعرہ ہی رہ جائے گا بہت سے سرکاری اسکولوں کے استاد گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کر رہے ہیں اور اسکولوں کا رخ تک نہیں کرتے ان گوسڑو اساتذہ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں موجود مختلف اسکولوں کی عمارتیں ناقابل استعمال ہیں ان عمارتوں کی مرمت کی جائے وزیر تعلیم بلوچستان وزیراعلی بلوچستان صوبے میں موجود تعلیمی پسماندگی کا نوٹس لے اور گوسڑو اساتذہ جو اسکول نہیں جاتے گھر بیٹھ کر تنخواہ وصول کرتے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔