لوچ قوم تاریخ کے بدترین نسل کشی کے دور سے گزر رہے ہیں ،پاکستان نے بلوچستان کو ایک مقتل گاہ بنا دیا ہے، بلوچ قوم کو اس بربریت سے نجات دلانے کے لئے ذمہ دار بین الاقوامی اداروں کا فریضہ ہیں کہ بلوچ نسل کشی کے خلاف موثر اقدام اٹھا کر عملی کردار ادا کریں – دل مراد بلوچ
بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات دل مراد بلوچ نے بلوچستان میں انسانی حقوق حوالے فروری کے مہینے کی پورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس ماہ فورسز کی جارحیت میں پہلے سے تیزی دیکھنے میں آئی جہاں فورسز نے 90 سے زائد آپریشنز میں 72 بلوچ فرزندوں کو حراست بعد اپنی آرمی کیمپوں میں منتقل کیا۔ دوران آپریشنز فورسز نے دو سو سے زائد گھروں میں لوٹ مار کی اور اسی دوران پچاس سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا گیا جبکہ آواران، جھاؤ، گریشک، خضدار، سوراب، زاعمران میں فورسز نے بدترین آپریشن کیئے ۔
ان کا کہنا ہے کہ فروری کے ماہ 16 نعشیں ملیں،جس میں12 افراد کے ہلاکت کے محرکات سامنے نہ آسکے جبکہ کیچ میں قابض فورسزنے ایک زیرحراست نوجوان کو تشدد سے قتل کرکے لاش ورثا کے حوالے کیا، کوئٹہ میں یونیورسٹی انتظامیہ کی امتیازی رویے کے باعث ایک بلوچ طالب علم بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھام اورماڑہ سے ایک لاپتہ شخص کی مسخ لاش برآمد ہوئی جسے فوج کے متوازی دہشت گردی ڈیتھ سکواڈ نے اغوا کے بعد لاپتہ کیا تھا۔ دو بلوچ فرزند قابض فورسز کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ فورسز نے ضلع کیچ کے علاقے زامران میں دس سے زائد نئی چوکیا ں قائم کیں جبکہ خضدارکے علاقے گریشک میں ایک خاندان کے گھروں پر بھی قبضہ کر کے فورسز نے وہاں کیمپ قائم کیا۔
اسی ماہ فورسز کے تشدد خانوں سے 29 افراد بازیاب ہوئے جس میں سے ایک شخص 2014 سے، پانچ افراد 2016 سے، ایک شخص 2017 سے، گیارہ افراد 2018 سے اور 11 افراد 2019 سے فورسز کی حراست میں تھے۔
بی این ایم کے سیکریٹری اطلاعات دل مراد بلوچ نے مزید کہا کہ فروری کے ماہ میں ضلع کیچ کے تحصیل بلیدہ زامران کے کئی علاقوں سمیت ضلع آواران کے علاقے مشکے، جھاؤ، آواران گرد نواح، ضلع خضدار کے علاقے گریشک، توتک کے علاوہ ڈیرہ بگٹی، سوراب، کاہان فورسز کے خاص نشانے پر رہے جہاں قابض فورسزنے بربریت کی تمام حدیں پارکیں۔
دل مرادبلوچ نے کہا کہ دو دہائیوں سے ہر نئی سرکار کے آتے ہی بلوچ نسل کشی میں مزید شدت لائی جاتی ہے۔ جنرل مشرف کے آٹھ سالہ دور میں میگا پروجیکٹس کے نام پر نہ صرف بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں تیزی لائی گئی بلکہ بلوچستان میں فوجی آپریشن، گھروں کو جلانے، بلوچوں کے اغوا اور قتل میں تیزی لائی گئی۔ پیپلز پارٹی نے زرداری کی سربراہی میں اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی بلوچ کش پالیسیوں جاری رکھتے ہوئے ”مارو اور پھینکو” پالیسی متعارف کرائی۔ ساتھ ہی پراکسیوں کے ذریعے ٹارگٹ کلنگ کو بھی بلوچ نسل کشی میں آلہ کے طور پر استعمال کرکے بلوچ دانشوروں، سیاسی و انسانی حقوق کے کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا۔ نواز شریف اور ڈاکٹر مالک کے دور میں اس خونی آپریشن و بلوچ تحریک کو کچلنے کیلئے تمام تر بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی اصولوں کو پاؤں تلے روندا گیا۔ کئی اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں جس میں توتک خضدار کی تین اجتماعی قبروں سے 179 لاشیں بھی شامل ہیں۔ اسی دوران سی پیک معاہدے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ سی پیک منصوبے کی روٹ پر آنے والی آبادیوں پر قہر برپا کی گئی۔ کئی گاؤں فوجی بمباری سے مجبور ہوکر خالی کیئے گئے۔ آج لاکھوں بلوچ بے گھر ہوکر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
دلمراد بلوچ نے کہا کہ موجودہ قابض حکمران عمران اور جام کمال نے اپنے پیشروؤں کی پیروی نہ صرف جاری رکھی ہے بلکہ اس میں خواتین، بچوں اور مختلف تعلیمی اداروں سے طالب علموں کے اغوا اور گمشدگی میں اضافہ کرکے پیغام دیا گیا کہ بلوچ ایک غلام ہے اور وہ آزادی سے نہ رہ سکتا ہے اور نہ ہی تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم تاریخ کے بدترین نسل کشی کے دور سے گزر رہے ہیں ،پاکستان نے بلوچستان کو ایک مقتل گاہ بنا دیا ہے، بلوچ قوم کو اس بربریت سے نجات دلانے کے لئے ذمہ دار بین الاقوامی اداروں کا فریضہ ہیں کہ بلوچ نسل کشی کے خلاف موثر اقدام اٹھا کر عملی کردار ادا کریں۔
فروری کے مہینے کی تفصیلی رپورٹ
1فروری
کیچ کے علاقے تلمب مند فوجی آپریشن میں احمد ولد یار محمد، شاہو ولد امین، داداللہ ولد امین، نواز ولد دوستین اور جتانی بازار دشت سے اسحاق ولد ابراہیم اور رحیم داد ولد امیتان کو قابض فوج نے حراست میں لے کرلاپتہ کیا۔
۔۔۔۔خاران کے باشندہ سالہ مقبول احمد ولد لعل محمد کودالبندین سے قابض فوج نے حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
۔۔۔کیچ کے علاقے گورکوپ میں قابض فوج نے دوران آپریشن دو سگے واھگ ولد موسیٰ ،حاصل ولد موسیٰ بھائی اور منیر ولد ولی محمدسکنہ گورکوپ کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔
۔۔۔ قلات تین سال قبل قابض فوج کے ہاتھوں حراست کے بعد لاپتہ ہونے والے عبدالحکیم ولد آزاد خان سکنہ قلات کلی پندرانی لہڑی اسٹریٹ بازیاب ہو گئے۔
۔۔کیچ کے علاقے ہوشاپ سے ایک سال قبل قابض فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے عطاء محمد ولد خیر بخش سکنہ ہوشاپ دمب حراست سے بازیاب ہوگئے۔
۔۔۔ گوادرقابض فوج کے ہاتھوں 26جنوری کوحراست بعدلاپتہ ہونے والے امام ولد حبیب سکنہ شولیگ دشت اور 26جنوری کونسیم ولد عبدالعزیز سکنہ دشت شولیگ حراست سے بازیاب ہو گئے۔
۔۔۔کیچ کے علاقے شاپک میں پاکستانی فوج کے مقامی ڈیتھ سکواڈنے آصف علی ولد قاسم کو قتل کردیا۔ خاندانی ذرائع کے مطابق آصف کو ایک فون آیا اور اسے گھر سے باہر بلایا گیا۔گھر والوں کے منع کرنے کے باوجود جب وہ باہر گیا تو دس منٹ کے بعد فائرنگ کی آواز آئی۔ گاڑی میں سوار مسلح افراد نے فائرنگ اسے قتل کردیا۔
واضح رہے کہ آصف علی کے بھائی ماسٹر حاصل کو شاپک سے دو سال قبل ایک چھاپے کے دوران پاکستانی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا تھا اور تین دن بعد اْس کی مسخ شدہ لاش ملی تھی۔
2 فروری
۔۔۔آواران کے علاقے کولواہ گند ہ چاہی سے قابض فوج نے سخی داد ولد نورالدین کوحراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
۔۔۔آواران کے علاقے جھاؤ ٹوبوکڈمیں فوجی آپریشن لوگوں پر شدیدتشدد اورمتعددگھر نذرآتش ،قابض فوج نے جھاؤکے علاقے ٹوبو کڈآپریشن کے دوران شدیدتشددکا نشانہ بننے والوں میں شامل دوسگے بھائی جاوید ولد دلمراد ،واحد ولد دلمراد کی حالت انتہائی تشویشناک بتائی جارہی ہے۔
فوج نے ٹوبوکڈ میں متعدد گھروں میں لوٹ ماری اورقیمتی اشیاء چرانے کے بعد انہیں نذرآتش کر دیا۔
واضح رہے کہ ٹوبوکڈ میں اس سے قبل بھی کئی آپریشن ہوچکے ہیں جس میں لوگوں پر تشدد کے علاوہ لوگوں کے گھر جلائے جاچکے ہیں۔
۔۔۔آواران کے علاقے جھاؤمیں فوجی آپریشن ، جھاؤ ندی نال کور سکڑھ سے قابض فورسز نے حسین ولد پیرو حسن ولد صبرو ، عرض محمد ولد عبدالکریم ،واحدبخش ولد حدو،پنڈوک ولد رحمت کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
۔۔۔آواران کے علاقے کولواہ پلنگی اور گرم آپ میں فوجی آپریشن کے دوران اکبر ولد جان محمد، واحد ولد جان محمداور غنی ولد علی سکنہ پلنگی کولواہ کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا اور متعدد گھروں میں لوٹ ماری کے بعد انہیں نذر آتش کردیا۔
۔۔۔سیکورٹی فورسز کے ٹارچر سیل سے ایک لاپتہ شخص بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گیا ہے۔
جس کی شناخت واحد ولد رسول بخش کے نام سے ہوگئی ہے جنہیں گذشتہ سال جون 2018کو سیکورٹی فورسز نے حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کیا تھا۔
4 فروری
۔۔۔ خاران قابض فورسز کے ہاتھوں 26اگست 2016حراست کے بعد لاپتہ ہونے والے اعجاز بلوچ اور 25اگست 2016کو حراست کے بعد لاپتہ ہونے غلام فرید حراست سے بازیاب ہو گئے۔
۔۔۔خاران کے نواحی علاقے زہرو زئی میں ایک شخص کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد ہوئی جس کی شناخت احمد قمبرانی ولد ڈاکٹر ایوب قمبرانی کے نام سے ہوئی ہے تاہم ان کو قتل کرنے وجوہات تاحال معلوم نہیں ہوسکے ہیں۔۔
۔۔۔خضدارکے علاقے اورناچ میں قابض فوج نے تین افراد عبداللہ جان، عبید اور ملا خان محمد کو حراست میں لینے کے بعدلاپتہ کیا ہے۔
5 فروری
۔۔۔کراچی کے علاقے منگوپیر سے 12دسمبر 2018کو حراست کے بعد لاپتہ ہونے والے محمد حنیف اور اس کا بھائی شاہ جہان اور والد لال بخش سکنہ کوہلو حراست سے بازیاب ہو گئے۔
۔۔ ۔خضدار کے علاقے زیدی سے بر آمد ہونے والی لاش کی شناخت نیاز ولد ولی رند کے نام سے ہوگیا ہے تاہم قتل کے محرکات معلوم نہ ہوسکے۔
۔۔۔قلات ایک ماہ قبل کوئٹہ سے لاپتہ ہونے والے مبین ولداصغر ،صغیرولد حیدر شاہ ،ابو سرولد اکرم اور ابرارولد حبیب سکنہ قلات بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
6 فروری
۔۔۔پنجگورکے علاقے صاحب کہن پنچی نامعلوم مسلح افراد نے گھر میں گھس کرفائرنگ کرکے صمید ولد رضا محمد کوقتل کردیا جبکہ ان کا بھائی سعید شدید زخمی ہوگیا ۔
۔۔۔کیچ کے علاقے زامران میں بڑے پیمانے پر بڑی فوجی آپریشن پروم اور بلیدہ سے فوجی دستے ٹرکوں اور موٹر سائیکلوں کے ذریعے زامران کے مختلف علاقوں میں داخل ہوکر آپریشن کررہے ہیں ۔
۔۔۔ڈیرہ بگٹی سے ایک طالب علم محمد علی بگٹی ولد مبارک کو قابض فوج نے حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
7 فروری
۔۔۔پنجگورکے علاقے کلیری پروم سے 30نومبر 2018کو قابض فوج کے ہاتھوں حراست کے بعد لاپتہ ہونے والے غفار ولد محمد یعقوب ،سرور ولد سنجر ،مسلم ولد ملا منان اور شاہ دوست ولد مراد آج پنجگور سے حراست سے بازیاب ہوگئے۔
یا درہے 30نومبر کوپاکستانی فوج نے شہید ناصر اور شہید لشکر کے جنازہ پر چھاپہ مار کر ان لوگوں حراست میں لے کر لاپتہ کردیاتھاجبکہ انہی کے ہمراہ حراست کے بعد لاپتہ ہونے والے علی اکبر ولد واحد بخش تاحال لاپتہ ہیں۔
8 فروری
۔۔۔آواران کے علاقے پیراندر زرانکولی میں پاکستانی فوج کی تین گن شپ ہیلی کاپٹروں نے پہاڑی علاقوں میں شدید شیلنگ کی ہے۔
۔۔۔کیچ کے علاقے بلیدہ اورزاعمران کے کئی علاقوں نوانو، دشت، جالگی اور تگران کے علاقوں کلّگ اور بدوئی سمیت گرد و نواح کے دیگر علاقوں میں قابض فوج کی زمینی و فضائی آپریشن جاری ہے علاقے میں مزید فوجی دستے جمع ہورہے ہیں ۔
۔۔۔۔کوئٹہ میں بولان میڈیکل کالج کے طالبعلم یوسف پرکانی نے خودکشی کرلی ،طالب علم نے امتحانات نہ لینے کے باعث خودکشی کرلی۔
طلبہ کے مطابق بی ایم سی انتظامیہ کی جانب سے ٹیکنیکل وجوہات کا بہانہ بناکر یوسف پرکانی کا وائیوا امتحان نہیں لیا گیا جس کے باعث انہوں نے خودکشی کی، ایک ہفتے کے دوران یہ دوسرا میڈیکل سٹوڈنٹ ہے جو کہ انتظامیہ کی من مانی اور ناجائز حربوں اور ہتھکنڈوں کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔
9 فروری
آواران پیراندرسے برکت ولد قادر بخش، علی بخش ولدصاحب داد اور قادر بخش کو اغوا بعد لاپتہ کیا۔
۔۔۔۔آواران میں کے مختلف علاقوں میں قابض فوج کی زمینی و فضائی آپریشن جاری ،دو افراد حراست بعد لاپتہ ، آواران پیراندر سے قابض فورسز نے دادو ولد باگو اور گل محمد ولد پیر محمدکوحراست میں لے کر لاپتہ کیا
یاد رہے کہ یہ لوگ پندرہ روز قبل فورسز کے حراست سے بازیاب ہوئے تھے۔
۔۔۔۔ نوشکی سے قابض فوج کے ہاتھوں20 نومبر 2016 کو کرکٹ گراونڈ سے فورسز حراست میں لیے جانے کے بعد لاپتہ ہونے والے محبوب علی جمالدینی ولد لونگ اور 31 اکتوبر 2014 کو نوشکی کلی غریب آباد سے لاپتہ ہونے والے حبیب الرحمن مینگل ولد سعد اللہ مینگل بازیاب ہوکر گھر پہنچ گئے۔
۔۔۔ ڈیرہ بگٹی کے علاقے زین کوہ میں بارودی سرنگ کی زد میں آکر دس سالہ بچہ شدید زخمی ہوگیا، دھماکے کے نتیجے میں بچے کی دونوں ٹانگیں کٹ گئیں۔
ڈیرہ بگٹی پیر کوہ کے علاقے حیدری نالہ میں گذشتہ مہینے بارودی سرنگ کے دھماکے کے نتیجے میں دو افراد محمد رحیم ولد یار محمد، علی نواز ولد دوست محمد شدید زخمی ہو گئے تھے۔
ضلع قلات کے نواحی علاقے کْنبی میں گذشتہ ہفتے بارودی سرنگ کے دھماکے میں نجیب اللہ ولد شیر محمد سکنہ کْنبی شدید زخمی ہوا ہے۔واضح رہے ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بارودی سرنگ کے دھماکوں میں اب تک کئی افراد شہیدو زخمی ہوئے ہیں۔
آواران کے علاقے جھاؤ آواران سے قابض فوج نے کریم جان ولد اللہ داد، پلین ولد اللہ داد، اسداللہ ولد میا پسند اور نسیم ولد دلمرادکو حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
10 فروری
۔۔۔کیچ کے علاقے دشت کے پہاڑی علاقوں میں فوجی آپریشن جاری ،سیع علاقے فوج کے محاصرے میں ہیں ،لوگوں پر فوج کی تشدد جاری ہے ۔
۔۔۔کیچ کے علاقے کسوئی زامران میں بی بی مہرجان بنت عبدالکریم جنہیں قابض فوج نے سات فروری کو حراست میں لے کر کیمپ منتقل کی تھی ،آج زخمی حالت میں کسوئی باز ار میں لوگوں کے حوالے کی۔ فوجی تشددسے ان کی ایک ہاتھ ٹوٹ چکی ہے ان کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔
سات فروری کو بلیدہ سے کسوئی زامران جانے والی بی بی مہرجان بنت عبدالکریم سکنہ الندور ان کے بھائی فداکو فوج نے حراست میں لے کر نامعلوم مقام منتقل کیا جنہیں طبی امداد کے لئے ہسپتال منتقل کیا ہے جبکہ ان کا بھائی فوج کے حراست میں ہیں۔
اس آپریشن میں فوج تین اطراف تگران ،بلیدہ اور پروم سے زامران کے وسیع پہاڑی علاقے میں داخل ہواہے اورآپریشن میں مصروف قابض فوج کو گن شپ ہیلی کاپٹروں کی کمک حاصل ہے۔
فوج نے زامران مختلف علاقوں میں نئی چوکیاں قائم کی ہیں جن میں ایشوئی ،جالگی ،شزارے ڈن ،دشتک شامل ہیں
۔۔۔کیچ سے 13جنوری2019کو کیچ کے علاقے ہوشاپ اور بالگتر کے درمیانی علاقے سے پاکستانی فوج کے ہاتھوں حراست کے بعد لاپتہ ہونے والا اسکول ٹیچر صغیر ساجن گزشتہ روزبازیاب ہو گیا۔
۔۔۔گوادرکے علاقے جیوانی دو بیست پنجاہ19ستمبر 2018کو قابض فوج کے ہاتھوں حراست کے بعد لاپتہ ہونے والا لال محمد ولد غلام محمد سکنہ سورک دشت آج گوادر سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا۔
۔۔۔آواران کے علاقے پیر اندر سے رحیم ولد پیر محمد کو قابض فوج نے حراست میں لے کر لاپتہ کیا جبکہ دو دن قبل قابض فورسز کی حراست بعد لاپتہ ہونے والے گل محمد ولد پیر محمد اور دادو ولد باگو بازیاب ہوگئے ۔
۔۔۔کیچ قابض فوج نے زہیر ولد محمد اقبال سکنہ ناگ زامران کوحراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
11 فروری
۔۔۔خضدارکے علاقے گریشگ میں قابض فورسزنے سگے بھائیوں محمد،کریم جان اور اسماعیل ولد روزی کے گھروں پر قبضہ کرکے انہیں چوکی میں تبدیل کردی جبکہ مکین شدیدسردی میں کھلے آسمان تلے پڑے مشکلات سے دوچارہیں۔
یاد رہے کہ محمد روزی پہلے فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہوچکے ہیں اور طویل عرصے تک لاپتہ رہنے کے بعد بازیاب ہوچکے ہیں اب قابض فورسز نے تینوں بھائیوں کو خاندان سمیت گھروں سے بیدخل کردیا ہے۔
۔۔۔آواران کے علاقے جھاؤکے مختلف علاقوں میں وقفے وقفے سے آپریشن جاری ہے اور آج فوج نے ٹوبو کڈ میں کئی گھروں پر چھاپے کے دوران لوٹ مار کی اورقیمتی سامانوں کا صفایا کردیافورسز کے بڑی تعداد میں موجودگی سے کرفیوں کا سماں ہے۔
۔۔۔کیچ کے علاقے بالگتر فیروزی میں قابض فورسز نے آپریشن کے دوران آٹھ افراد نیاز ولد بہار، رجب ولد محراب، زمان ولد محمد، نظر ولد غفور، فیروز ولد اْمیتان، وحید ولد عیسٰی، نور خان ولد فضل اور وہاب ولد محمدکریم کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
۔۔۔آواران کے علاقے جھاؤ سے 20دسمبر 2018کو قابض فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والاعبدالغنی ولد مراد بخش سکنہ جھاؤ دراہی بھینٹ حراست سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا۔
12 فروری
۔۔۔پنجگور کے علاقے چکل میں قابض فورسزنے 7جون 2018 سے لاپتہ محمد حنیف کے گھر پر چھاپہ مارکر خواتین اور بچوں کو شدید ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا اورگھر میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
محمد حنیف پنجگورسے متصل ایران بارڈر سے ڈیزل لاکر پنجگور میں فروخت کرتے تھے انہیں گھر سے قابض فورسز نے حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جوتاحال لاپتہ ہیں۔
۔۔۔کوئٹہ سے 2016 کوقابض فورسز کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے خان زمان ولد محمد یوسف نیچاری سکنہ کلی اسماعیل بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔
13 فروری
پشاور میں زیر تعلیم ضلع آواران کے طالب علم سرفراز ولد عمرسکنہ تیرتیج آواران کو پاکستانی خفیہ اداروں نے پشاور سے حراست میں لے کرلاپتہ کیا۔
۔۔۔ کیچ کے علاقے آبسر سے طالب علم نسیم ولد دلمراد سکنہ کولواہ بلورکو قابض فوج نے حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
۔۔۔آواران کے علاقے جھاؤ میں فوجی کئی روز سے جاری آپریشن میں قابض فوج کی لوگوں پر تشدد اور لوٹ ماری میں مزید شدت آگیا۔ جھاؤ کے مختلف گاؤں شکاری گوٹھ، لال بازار اوردمب علی محمد گوٹھ میں فورسز آپریشن کرکے لوگوں پر شدید تشدد کیا اور گھروں میں لوٹ مار مچاکرقیمتی اشیاء کا صفایاکردیا۔
لال بازار اوردمب علی گوٹھ مزید فوجی دستے جمع ہورہے ہیں او رفورسزکی ایک بڑی قافلہ لال بازار کے پہاڑی سلسلوں میں داخل ہوکرآپریشن کررہاہے۔
۔۔۔اورماڑہ کے پہاڑی علاقے سیدآباد سے لاپتہ تلاؤ ولد جمعہ کی کئی روز پرانی لاش برآمد ہوئی ہے جنہیں قابض فوج کے ڈیتھ سکواڈ نے اغواء کیاتھا۔
14 فروری
۔۔۔آواران کے علاقے جھاؤ کے مختلف گاؤں میں لال بازار ،دمب علی گوٹھ اورگرد نواح میںآپریشن جاری
15 فروری
۔۔۔کیچ کے علاقے جالگی زعمران سے قابض فوج نے شاہ بخش ولد نور بخش اور داد شاہ ولد اسحاق کوحراست میں لے کرلاپتہ کردیا۔
۔۔بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا طالبعلم 10روز سے لاپتہ ہے۔ ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والا بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کا طالب علم محمد علی بگٹی ولد مبارک بگٹی کوگذشتہ دنوں ڈیرہ بگٹی میں گول چوک سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
یادرہے کہ مطابق محمد علی بگٹی کو اس سے قبل بھی 14 دسمبر 2018 کو کوئٹہ سے فورسز نے حراست میں لیا تھا لیکن پھر دو دن بعد انہیں رہا کردیا گیا تھاجس کے بعد وہ اپنے آبائی علاقے ڈیرہ بگٹی چلے گئے تھے جہاں انہیں ایک بار پھر 6 فروری کو جبری طورپر لاپتہ کردیا گیا۔
16 فروری
۔۔۔کیچ کے علاقے مند میں قابض فورسزنے چھاپہ مار کرستار ولد دلوش، یحییٰ ولدانور اور شبیر ولد گل محمد سکنہ مند گوبرد کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
فورسزنے چھاپے کے دوران گھروں کی تلاشی لی اورخواتین و بچوں کوحراساں کیا۔ فوج نے بعدمیںیحییٰ کو چھوڑ دیاجبکہ شبیر اور ستار تاحال فورسزکے حراست میں ہیں۔
۔۔۔ڈیرہ بگٹی میں قابض فوج نے درنجین، اْچ اور شاری دربار میں آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے دو افرادکریم ولد جان بگٹی اور اس کا جوانسال بیٹا زیرو بگٹی کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
۔۔۔کوئٹہ میں پولیس کی جانب سے گاڑی پر فائرنگ، ایک شخص ہلاک اور ایک زخمی
کوئٹہ کے علاقے اختر آباد میں پولیس نے ایرانی تیل کوئٹہ لے جانے والے گاڑی ڈرائیور شربت خان کو فائرنگ کرکے شہید کیافائرنگ کے نتیجے میں دوسرا شخص زخمی ہوگیا جسے پولیس نے گرفتار کرلیا ہے ۔
17 فروری
۔۔۔خضدارکے علاقے کھنڈاور نیوآڈھ اور گردنواح میں قابض فورسز نے آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے گھر گھر تلاشی کے دوران خواتین اور بچوں کو شدیدکو حراساں کیاگیا۔
۔۔۔کیچ کے علاقے مند،گوبرد میں ہفتہ کی شام پاکستانی زمینی فوج نے آبادی پر دھاوا بول کر تین افراد ستار ولد دلوش، شبیر گل ولد گل محمد اور ییحی ولد انور کو حراست میں لے کرلاپتہ کرنے کے علاوہ گھروں میں لوٹ مار کی اور خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔
۔۔۔کیچ کے علاقے مند بلوچ آباد میں قابض فورسز نے چھاپہ مار کر منصور ولد شفیع محمد کو گرفتار کرکے لاپتہ کردیا۔
18 فروری
۔۔۔مستونگ سے ایک شخص کی لاش برآمد ہوئی ہے۔
گودار کے علاقے مونڈی سے قابض فورسز کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے پیر جان ولد امین حراست سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا ۔
20 فروری
۔۔۔۔سوراب وگرد نواع بڑی فوجی آپریشن ، کئی علاقوں کے لیویز اور مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے بھی شامل ہیں۔
۔۔۔کیچ کے علاقے ہیرونک میں قابض فورسز نے آپریشن کرتے ہوئے لیوار ولد مرادکوحراست میں لے کر لاپتہ کیا ۔
20 فروری
۔۔۔کیچ کے علاقے ہیرونک سے قابض فورسز نے علاقے میں آپریشن کے دوران مہیب ولد قادر کو حراست میں لینے کے لاپتہ کیا۔
21 فروری
۔۔۔تربت کے علاقے ہیرونک میں فوجی آپریشن میں تین افرادسراج ولد داد محمد، محمد ولد داد محمد اور گہرام کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا۔
۔۔۔تربت کے علاقے ہیرونک سے پاکستانی فوج نے ایک نوجوان کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا جس کی شناخت نہ ہوسکی
۔۔۔خضدار ، توتک کے علاقے کو قابض فورسزگھیرے میں لے کر گھر گھر تلاشی شروع کی۔ دوران تلاشی فورسز نے متعدد گھروں سے قیمتی سامان بھی لوٹ لیا۔
22 فروری
۔۔۔گوادر سے قابض فوج نے آ ج بروزجمعہ علی الصبح بوقت چار بجے نیاآباد میں ایک گھر پر چھاپہ مارکر دو نوجوانوں یاسر ولد محمد رحیم سکنہ ہسادی دشت اورحفیظ ولد روزی کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیابعدمیں حفیظ ولد روزی کو چھوڑ دیا گیا جبکہ یاسر ولد محمد رحیم تاحال لاپتہ ہیں۔
۔۔۔نوشکی سے دو سال قبل قابض فورسزلاپتہ ہونیوالے نوجوان نوشکی کے نواحی علاقے ڈاک عمر شاہ کے رہائشی عبدالباسط محمدزئی مینگل دو سال بعد بازیاب ہوکر اپنے گھر پہنچ گئے۔
۔۔۔جھاؤ میں فوجی آپریشن جاری،آج قابض فوج نے سورگر کے رہائشی دو سگے بھائی سہراب ولد حضوربخش اور فتح محمد ولد حضوربخش کو گرفتار کر کے لاپتہ کیا ۔
۔۔۔آواران سے19جنوری 2019کو حراست بعد لاپتہ ہونے والے مراد جان ولد عزیز بشیر ولد لکو ،چارشمبے ولد مراد بخش اور اشرف ولد مراد بخش سکنہ تیرتیج آواران حراست سے بازیاب ہو گئے ۔
۔۔۔ڈیرہ بگٹی سے قابض فوج نے عطاء اللہ اور دوست محمد کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا ۔
23 فروری
۔۔۔گوادر سے قابض فورسزنے دادشاہ ولد ناصر اور عدنان ولد مولا بخش سکنہ دشت ہسادی کوحراست میں لے کر لاپتہ کردیا۔
گوادر کے علاقے مونڈی میں ایک گھر پر چھاپہ مارکر خواتین وبچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں ہراساں کیا تمام لوگوں کے موبائل فون بھی اپنے قبضے میں لئے۔
اسی طرح فورسز نے گوادر فقیر کالونی میں حاجی یاسین نامی شخص کے گھر پر چھاپہ مارکروہاں دو نوجوانوں کو حراست میں لیکر جبری طور پر لاپتہ کردیا ہے ۔
جن کی شناخت سلام ولد حاجی یاسین اور اکرم ولد حاجی یاسین کے ناموں سے ہوگئی ہے جو آپس میں بھائی ہیں اور دشت ہسادی کے رہائشی بتائے جاتے ہیں۔
۔۔۔خضدار ،سوراب و دیگرو نواح میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن،آپریشن کا آغاز 19 فروری سے خضدار کے علاقے باغبانہ سے کیا گیا۔باغبانہ میں لونڈو نوتانی اور باجوئی میں صبح 7بجے سے لے کر رات 8بجے تک آپریشن کیا گیا جس میں گھر گھر تلاشی لی گئی ۔باجوئی سے ایک شخص کو حراست میں لینے کے بعد نا معلوم مقام پر منتقل کرنے کی بھی اطلاعات ملی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ 21 فروری کو خضدار توتک کے علاقے کو سیل کرکے آپریشن کیا گیا ۔
۔۔۔کیچ کے علاقے دوروزقبل فورسز نے حراست بعد ٹارچرسیل منتقل کئے جانے والے بہرام ولد بشام کے لاش کو ورثاء کے حوالے کردیا جسے اذیت رسانی سے شہید کیا گیا تھا، مقتول بہرام کے ساتھ محمد ولد داد محمد اور سراج ولد داد محمد نامی دوبھائیوں کو بھی فورسز نے حراست میں لیکر لاپتہ کیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔
۔۔۔خاران پتکن کا رہائشی نوجوان نوشکی سے لاپتہ، 22 دن قبل خاران پتکن کا رہائشی 16 سالہ نوجوان مقبول احمد دالبندین سے نوشکی جاتے ہوئے قابض فورسزنے لاپتہ کیاتھا۔
۔۔۔ دو سال قبل حراست بعد لاپتہ ہونے والے ملا محمد خان ساسولی حراست سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا ۔
24 فروری
۔۔۔ لاپتہ شبیر بلوچ کی گمشدگی کا ایف آئی آر دو سال بعد درج کرلی گئی۔لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویئٹر پر اس حوالے سے کہا ہے کہ میں دو سال کے بعد اپنے لاپتہ بھائی شبیر بلوچ کا ایف آئی آر درج کرانے میں کامیاب ہوگئی ہوں۔
۔۔۔ خضدار کے تحصیل وڈھ کے مختلف علاقوں میں قابض فوج نے سرچ آپریشن کے دوران گھر گھر تلاشی لینے کے علاوہ متعدد گھروں میں فورسز نے توڑ پھوڑ بھی کی۔
فورسز کے ہمراہ سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے علاوہ مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے بھی آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
گوادرسے 21فروری کو نیا آباد سے قابض فوج کے ہاتھوں حراست بعد لاپتہ ہونے والے یاسر ولد محمد رحیم سکنہ دشت ہسادی حراست سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا۔
25 فروری
۔۔۔۔کوہلو کے تحصیل کاہان میں قابض فورسز نے جاڑا اور آس پاس کے علاقوں میں آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔دوران آپریشن فورسز نے مختلف مقامات پہ گھروں کی تلاشی کے بعد مال مویشیوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔
۔۔خضدار کے سب تحصیل اورناچ کے علاقے ڈاٹ سے ایک شخص کی لاش ملی ہے جس کی شناخت شیر جان ولد محمد بخش کے نام سے ہوئی ہے۔ مذکورہ شخص ہفتے کی روز اپنے موٹر سائیکل کے ہمراہ لاپتہ ہوا تھا جبکہ لاش کے نزدیک ان کی موٹر سائیکل بھی برآمد کرلی گئی۔
تاہم مذکورہ شخص کی گمشدگی کے بعد ہلاکت کے محرکات تاحال معلوم نہیں ہوسکے۔
۔۔۔ضلع خضدار کے نواحی علاقے باغبانہ میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے چار افراد جاں بحق ہوگئے۔
جاں بحق افراد میں 3 سگے بھائی بھی شامل ہیں تاہم فائرنگ کی وجوہات معلوم نہیں ہوسکی۔
۔۔۔کوئٹہ کچلاک میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک شخص گل خان جاں بحق ہوگیا۔ وجہ معلوم نہ ہو سکی
۔۔۔آواران کے علاقے مشکے اور گرد نواح قابض فوج کا زمینی و فضائی آپریشن،کئی علاقے محاصرے میں ہیں ۔
۔۔۔آواران مشکے بلوچ فرزند خالد بلوچ عرف زرین اپنا قومی فرض نبھاتے ہوئے شہید ہوئے ۔
26 فروری
۔۔۔ ضلع کیچ کے علاقے تربت میں کمشنر آفس کے سامنے خواتین اور بچوں کی جانب سے فورسز کے ہاتھوں نوجوان کی حراست بعد ہلاکت اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی دھرنا د، ہیرونک سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی مطالبہ کررہے ہیں جبکہ ان کا کہنا ہے کہ پانچ دن قبل ہیرونک سے فوجی آپریشن میں تین نوجوانوں کو اغواء کیا گیا جن میں سے گہرام ولد بشام کو دوران حراست تشدد سے ہلاک کیا گیا مگر ہمیں ان کی لاش دفنانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی یہ ہمارے ساتھ ظلم اور جبر کی انتہا ہے۔
خواتین کا کہنا ہے کہ گہرام ایک غریب مزدور تھا جو مکانات تعمیر کر کے اپنا گزر بسر کرتا تھا ان کے ساتھ گرفتار کیے گئے دو نوجوان بعد میں رہا کردیئے گئے لیکن گہرام کو تشدد کر کے حراست کے دوران قتل کیا گیا بعد میں ان کی لاش گاوں لاکر کہا گیا کہ وہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہے لیکن ان کی لاش ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے زبردستی اسے دفن کیا گیا تاکہ ان کے جسم پر تشدد کے نشانات نہیں دیکھے جاسکیں۔
گوادر سے 21اور 22فروری درمیانی شب کو حراست بعد لاپتہ ہونے والے سلام ولد حاجی یسین بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا ۔
27 فروری
۔۔۔کیچ سے مئی 2018 کو تربت سبزی منڈی سے قابض فوج کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے عبدالرحمن ولد اسلم بازیاب ہو کر اپنے گھر پہنچ گئے۔
28 فروری
10فروری2018کو تربت سے حراست بعد لاپتہ ہونے والے ظہیر ولد اقبال سکنہ ناگ زامران حراست سے بازیاب ہوکر گھر پہنچ گیا