بلوچستان : سو میں صرف پانچ مسخ شدہ لاشوں کی شناخت ہوتی ہے – رپورٹ

881

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 30 کلومیٹر دور دشت کے علاقے میں جہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں یہاں ایک نئی بستی بن رہی ہے جس کو آباد ہوئے ابھی صرف ڈھائی سال کا عرصہ ہوا ہے۔

یہ بستی نامعلوم افراد کی ہے، یہ ایدھی فاؤنڈیشن کا تیسرا قبرستان ہے۔

کوئٹہ-سبی روڈ پر واقع اس قبرستان میں ڈیڑھ سو کے قریب قبریں ہیں، جن میں سے 10 قبریں ان مسخ شدہ لاشوں کی ہیں جنھیں رواں سال نو جنوری کو دفنایا گیا تھا۔ یہ لاشیں پہاڑی علاقوں سے لاورث حالت میں ملیں تھیں۔

ایدھی حکام کا کہنا ہے کہ انھیں گذشتہ 26 ماہ میں 131 تشدد زدہ لاشیں ملی ہیں جن کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔ ان سب کو اسی قبرستان میں بطور امانت دفنایا گیا ہے۔

12 سال سے لاشیں اگلتی زمین

 بلوچستان سے تشدد زدہ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ سنہ 2008 سے شروع ہوا تھا جب قوم پرست جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گمشدگی کے واقعات رونما ہوئے۔

جنرل پرویز مشرف سے لے کر عمران خان تک یہ چوتھی حکومت اقتدار میں آئی ہے، لیکن لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ نہیں رک سکا۔

میاں نواز شریف کے دور میں بلوچستان اسمبلی کو یہ بتایا گیا تھا کہ سنہ 2010 سے لے کر 2013 تک بلوچستان سے 612 تشدد زدہ لاشیں ملیں، جن میں سے 373 بلوچوں اور 95 پشتونوں کی تھیں۔

سنہ 2016 میں جیو نیوز کے حالات حاضرہ کے پروگرام ‘آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ’ میں بتایا گیا تھا کہ ‘بلوچستان سے سنہ 2010 سے 2016 تک 940 تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئی ہیں، جن میں 51 فیصد بلوچ اور 22 فیصد پشتون تھے۔

قبرستان

سورش زدہ علاقے زیادہ متاثر

کوئٹہ میں پولیس سرجن آفس اور ‎ایدھی  سے لی گئی معلومات کے مطابق یہ لاشیں کوئٹہ کے علاوہ زیادہ تر قلات، مستونگ، تربت، آواران، ڈیرہ بگٹی، خضدار، پشین اور کچلاک سے ملتی رہی ہیں۔

توتک اور ڈیرہ بگٹی سمیت دیگر علاقوں سے اجتماعی قبریں بھی برآمد ہوچکی ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ علاقے، خاص طور پر مکران بیلٹ، شورش کے زیر اثر رہیں ہیں۔

شناخت میں دشواری

ایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکار محمد عارف کا کہنا ہے کہ ایسی لاشیں اکثر پہاڑی علاقوں سے ملتی ہیں۔ یہ زیادہ تر گلی سڑی اور تشدد کا شکار ہوتی ہیں اور ان کی شناخت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

ایدھی کے کارکن

‘خراب حالت میں ہونے کے باوجود ہم ان کی تصویریں لے کر فیس بک وغیرہ پر پوسٹ کرتے ہیں، اس امید میں کہ ہوسکتا ہے ان کے وارث مل جائیں اور یہ ان کے کاندھوں پر قبرستان چلے جائیں۔ لیکن بہت کوشش کرنے کے باوجود بھی سو میں سے صرف پانچ فیصد کی مشکل سے شناخت ہوتی ہے۔’

بتیس اضلاع اور پاکستان کے 44 فیصد رقبے پر مشتمل بلوچستان میں صرف کوئٹہ سول ہسپتال میں پوسٹ مارٹم اور سرد خانے کی سہولت موجود ہے، جہاں ڈیرہ بگٹی، لسبیلہ سے لیکر سبی اور مسلم باغ اور تافتان سے بھی لاشیں لائی جاتی ہیں۔

کوئٹہ سول ہسپتال کی پہلی پولیس سرجن ڈاکٹر عائشہ بلوچ کا کہنا ہے کہ جو تشدد زدہ لاشیں ملتی ہیں ان پر گولیوں کے نشانات ہوتے ہیں بعض پر تیز دھار آلے سے گہرے زخم نظر آتے ہیں ان میں زیادہ تر جوان ہوتے ہیں جن کی عمریں 24 سے 30 سال کے درمیان ہوتی ہیں بعض اوقات چہروں پر کیمیکل ڈالتے ہیں یا چونا چھڑک دیتے ہیں تاکہ شناخت نہ ہوسکے۔

پولیس سرجن

شناخت کی کوششیں

بلوچستان میں ملنے والی تشدد زدہ لاشوں کا اندراج تو کیا جاتا ہے لیکن ان کی شناخت کا کوئی مؤثر طریقہ کار دستیاب نہیں ہے۔

حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ صوبائی محکمہ داخلہ نے سنہ 2010 سے نامعلوم لاشوں کے اندراج کا سلسلہ شروع کیا جس کا حکم سپریم کورٹ نے دیا تھا۔ اس سے قبل ملنے والی لاشوں کا کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔

پولیس سرجن کا کہنا ہے کہ وہ پولیس چوکی کو آگاہ کرتے ہیں اگر جیب میں شناختی کارڈ یا موبائل ٹیلیفون وغیرہ ہو تو اس سے لواحقین سے رابطے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر شناخت نہ ہوسکے تو پھر سرد خانے میں یہ لاشیں رکھ دی جاتی ہیں۔

’ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں پر لیبارٹری نہیں ہے، اس لیے انھیں پنجاب کی لیبارٹری میں بھیجتے ہیں اور نتائج پولیس کے حوالے کردیئے جاتے ہیں کہ اگر کوئی آئے اور کہے کہ ان کا کوئی گمشدہ ہے تو اس کا ڈین اے کراس میچ کیا جاتا ہے۔ اس سے کئی لاشوں کی شناخت ہوچکی ہے۔‘

لاپتہ افراد کی تصاویر

پاکستان میں سپریم کورٹ اور سینیٹ کی انسانی حقوق کے بارے میں قائمہ کمیٹی نے ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا تھا تاہم انسانی حقوق کی تنظیمیں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔

بلوچ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی وائس چیئرمین طیبہ بلوچ کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین سول ہسپتال کوئٹہ یا کوئی بھی علاقہ ہو وہاں جاتے ہیں لیکن ڈی این اے ٹیسٹ نہیں لیے جاتے ہیں پھر خاندان مایوس ہوکر آجاتے ہیں۔

انھیں معلوم نہیں ہوتا کہ یہ جو لاش ملی ہے یہ ان کے لاپتہ نوجوان کی ہے یا نہیں کیونکہ لاش شناخت کے قابل نہیں ہوتی ہے اس لیے بغیر ڈی این اے کے شناخت ممکن ہی نہیں ہوتی۔

سول ہسپتال کوئٹہ سے دو کلومیٹر دور پریس کلب کے باہر ‘وائس فار مسنگ پرسنز’ کا احتجاجی کیمپ کئی سالوں سے موجود ہے جہاں ان لاپتہ افراد کے خاندانوں کی خواتین روزانہ کئی گھنٹے بیٹھ کر اپنا خاموش احتجاج رکارڈ کرتی رہتی ہیں۔

شبیر بلوچ چار اکتوبر سنہ 2016 سے تربت سے مبینہ طور پر جبری لاپتہ ہیں۔

ان کی بہن سیما بلوچ کا کہنا ہے کہ جب بھی کہیں سے لاش ملتی ہے تو ہمارے خاندان کے مرد وہاں جاتے ہیں لیکن کبھی شناخت نہیں ہوئی۔ ہمارے لوگ تربت اور آواران کے علاقے جھاؤ بھی جاچکے ہیں لیکن کبھی بھی ڈی این اے نہیں کیا گیا۔

گمشدہ کے لواحقین

بلوچستان سے لاپتہ افراد کی حقیقی تعداد کتنی ہے یہ واضح نہیں؟ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد 30 ہزار سے زائد ہے۔ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں ساڑھے چار ہزار کی فہرست پیش کی جبکہ صوبائی حکومت نے 160 کے قریب فہرست تیار کی ہے۔

بلوچستان کی صوبائی وزیر داخلہ ضیالانگو کہتی ہیں کہ جو احتجاج پر موجود لوگ ہیں ہو سکتا ہے کہ جو مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں وہ ان کے رشتے داروں کی ہوں لیکن وہ جب تک حکومت کو تحریری طور پر شکایت نہیں کریں گے حکومت کچھ نہیں کرسکتی۔ ‘جب کوئی اپنا سر کا درد میرے پاس لیکر آئیگا تو ہی میں اس کو گولی دوں گا۔’

ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں اتنا کنفیوژن پیدا کیا گیا ہے کہ لوگ اداروں اور حکومت کو شبہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس صورتحال کا کچھ لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے وہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں آئندہ دو ماہ میں صورتحال واضی ہوجائیگی۔

گمشدہ کی بہن

عدلیہ اور پارلیمان میں گونج

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا معاملہ زیر بحث آیا جس میں افتخار محمد چوہدری کے یہ ریمارکس سامنے آئے تھے کہ مسخ شدہ لاشوں میں ایف سی کا نام آرہا ہے۔

سنہ 2014 میں توتک سے ایک اجتماعی قبر ملنے کے بعد اس وقت کے سدرن کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ نے صوبائی حکومت کو خط لکھ کر تحقیقات کے لیے کہا اور سکیورٹی اداروں پر الزامات کی نفی کی گئی تھی، ڈان اخبار سمیت دیگر اداروں میں یہ خط رپورٹ بھی ہوا۔

سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ اس خط سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ جنرل جنجوعہ نے اپنا ایک مثبت کردار ادا کیا اور بلوچستان کے حالات کو معمول پر لانے میں انکا بڑا کردار تھا۔

بلوچستان اسمبلی کے علاوہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے علاوہ لاشوں کی برآمدگی زیر بحث آئیں، سینیٹ کی انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی نے سنہ 2016 میں آئی جی ایف سی کو طلب کیا لیکن وہ کمیٹی کے روبرو پیش نہیں ہوئے۔ کمیٹی نے گذشتہ دو سالوں میں ملنے والی مسخ شدہ لاشوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی منظوری دی تھی، کمیٹی کو بتایا گیا کہ گذشتہ دو سالوں میں 50 سے زائد مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔

ریاستی، حکومتی، ادارتی اور سیاسی سطح پر کوئی سنجیدہ اقدامات سامنے نہیں آئے، نتیجتاً بلوچستان کی سرزمین گذشتہ 12 سالوں سے نوجوانوں کی لاشیں اگل رہی ہیں جب کبھی ان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے تو میڈیا میں سیاسی تشویش بڑھتی ہے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ دھول بیٹھ جاتی ہے۔