بلال ہم تم سے بچھڑے نہیں ہیں
تحریر: حمل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
غالباً آج سے بارہ سال پہلے ہم جب کبھی سٹڈی سرکلز لگاتے تھے، ہر مصیبت، تکالیف، پُرکٹھن حالات سے نا بلد بس کتابی کہانیوں کو دہراتے تھے بلا کسی ججھک کے کہتے تھے کہ یہ جنگ ہماری بقا کی جنگ ہے، ہمیں بے شمار قربانیاں دینی ہونگیں، جنگ ہوگی، فوج کشی ہوگی، بستیاں جلا دئیے جائیں گے، کارکنان شہید کر دیئے جائیں گے، لوگ اغواء ہوں گے” ایسی باتیں کرتے ہوئے ذرا بھی گولیوں کی گڑ گڑہٹ، توپوں کی گونج، خون سے لت پت لاشیں، ویران آبادیاں ، اُجڑے گھر، یتیم بچے، بیوا عورتیں، گُمان تک سے نہیں گُذرتے۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ دل و جگر سے قربت رکھنے والے اتنے ہم عصر بس لمحوں میں بچھڑ کر یادوں میں جگہ لیں گے۔
آج سے پانچ سال پہلے کسی کام کے سلسلے میں مجھے پارود شور جانا پڑا، فروری کا مہینہ تھا، قلات کی جما دینے والی سردی اور قندھاری یخ بستہ ہواہوں کی زد میں ٹٹھرتے ہوئے، ہم شام کو کیمپ تک پہنچ گئے، دوستوں سے رسمی حال احوال ہوا، اکثر جان پہچان والے تھے۔ کچھ نئے دوست بھی آئے ہوئے تھے، تاریکی کی وجہ سے اُنہیں نہیں پہچان سکا چونکہ ہم تھکے ہوئے تھے کھانا کھانے کہ بعد لیٹ گئے، صبح وقتی اُٹھ کر ہاتھ منہ دھونے کے لیئے چشمے کی طرف جارہا تھا، پیچھے سے کسی نے آواز دیا “سنگت صبح وقتی اُٹھ گئے ہو سردی سے نیند نہیں آئی کیا؟” میں نے مُڑ کر دیکھا وہ ہنس رہا تھا، اُس کے لمبے گھنے بال کندھوں پر رکھے ہوئے تھے، سر پر گول ٹوپی تھی جو اکثر ٹورسٹ پہنتے ہیں، بندوق کندھے پر لٹکا ہوا تھا، ہاتھ میں چائے دانی کو ہلاتا ہوا میری طرف آرہا تھا، نام کیا ہے تمھارا ؟ حمل … میں نے کہا پھر ہنس کر کہنے لگا اصلی نام کا نہیں پوچھ رہا ہوں میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا، نقلی ہے پھر ہم دونوں ہنستے ہوئے چشمے تک گئے۔ منٹوں میں وہ مجھ سے اتنا گُھل مل گیا کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم پہلی دفعہ مل رہے ہیں۔
پھر وتاخ میں قہقہوں کی گونج تھی، محفل تھی، شاعری تھی، تاش یا لڈو یا کوئی سنجیدہ مسئلہ بلال ضرور شامل تھا۔ بلال ایک دفعہ تو تم نے حد کردی، یاد ہے نہ جب آپ گشت پر تھے، آپ اور ایک دوست واکی ٹاکی پہ مشاعرہ کر رہے تھے اور شہید جمال نے بیچ میں وائس دے کر آپ دونوں کو اسی وقت ڈانٹا تھا۔ اس وقت میں گھاٹ پر تھا، میرا بھی ارادہ تھا کہ ایک غزل بیچ میں ٹھونک دوں، مگر جمال نے ڈانٹ کر مشاعرہ ہی بند کر دیا۔ یہ واقعات میرے لیئے زندگی کے حسین ترین اثاثہ ہیں۔ پھر ایک دن خبر ملی کہ آپریشن کے اطلاعات ہیں، فوج نے قریبی علاقے محاصرے میں لیئے ہیں اور راستوں کی ناکہ بندی کی ہے. میں کسی دوست کہ ساتھ نکل گیا اپنے کاموں کے سلسلے میں شہر کی طرف۔ پھر وقت گذرتا گیا، ہم اپنی کاہلی اور سستی کو فیس بک کے سکرین پر رہ کر چھپاتے رہے. ایک لمبی مُدت گذرنے کے بعد بلال سے کوئی حال احوال نہیں ہوا۔
پھر اچانک ایک دن فیس بک میں ایک شعر پر میں نت کمنٹ کیا کہ عروض میں نہیں اتر رہا ہے .. انبکس میں پرنسل میسج موصول ہوا کہ آپ اصلاح کردیں شعر کے نیچے بلال لکھا ہوا تھا، شعر میں خارانی انداز دیکھ کر نہیں جانتا کیوں مجھے لگا کہ بلال ہمارا بلال ہے، میں نے کہا عنایت گُل کو دے دو اصلاح کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر میں نے میسج لکھدیا کہ کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے آشنا ہیں۔ آپ ہمارے بلال ہو؟ پھر اُس نے کہا کہ کون ہو ڑے شوم؟ مجھے شہید امیر جان سے منسلک ایک واقعہ یاد آیا۔ ہم ساتھ میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے تو کوڈ نام ہمارا موضوع تھا، اُس نے کہا کہ ہمارے اِن ناموں کے علاوہ بھی کیمپ میں کچھ سنگتی والے نام ہیں، جس طرح میں بلال کو ویگن دیم کہتا ہوں، پھر میں نے میسج کیا ویگن دیم آپ کو کون بولتا تھا؟ سکینڈوں میں مجھے وائس موصول ہوا کہ شہید امیر الملک! پھر حال احوال شروع ہوا، کافی گلے شکوے ہوئے رابطے بحال ہوئے رزاق بلال سے بدل کر جلال، کبھی پرشتگیں قلم، کبھی فٹبالر، مگر ہم ٹہرے وہیں کہ وہیں۔
پچھلے گرمیوں میں معمول کی طرح دوپہر ایک بجے میں نیند سے بیدار ہوا تو وٹسپ پہ پانچ میسج موصول ہوئے تھے چونکہ رات دیر تک آنلائن تھا اور آنکھ لگی چکی تھی، کہاں ہو زنڈ سر؟ میں بلال …. وادی ء شال میں اور کہاں ہوسکتا ہوں میں نے کہا. میں بھی شال میں ہوں تم سے ملنا ہے۔ میں اُس کیفیت کو بیان نہیں کرسکتا کہ کتنے سالوں بعد سنگت کا دیدار میسر ہوگا۔ پھر آنکھ منہ دھوئے بغیر میں بروری پہنچ گیا۔ وہ مجھ سے پہلے طے کردہ پوائنٹ پہ موجود تھا۔ پھر موٹر سائیکل پر سوار ہو کر ہم برروی بائی پاس کی طرف روانہ ہوئے۔ میں نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا کیا کھلاؤ گے، میں نے ناشتہ بھی نہیں کیا ہے، ابھی تک. کہنے لگا یار بس زیادہ خرچہ نہیں اُٹھاؤ .. بس ایک روسٹ کھلاؤ بہت پتلا ہو گیا ہوں باڈی بنانا ہے، میں نے ہنس کر کہا اتنا پتلا بھی نہیں ہو جاؤ کہ آپ کو موٹر سیکل نہیں اُٹھا سکے، پھر ہمارے قہقہوں کی گونج تھی، پتہ ہی نہ چلا کہ ہم کب پہنچ چکے تھے اور ویٹر ہمارے پاس بیٹھ کر آرڈر کا انتظار کررہا تھا. میں نے پانچ دفعہ بولا ” اور سناؤ کیسے ہو، دوست کیسے ہیں مجھے گھنٹوں میں سالوں کی ہر محسوسات، خیالات، واقعات اور لمحات سے آگاہ کرو، پارود کیسا تھا۔
بلال یاد ہے تمھاری فون پر تصویریں دیکھ رہے تھے اور میں نے سنگت شیرا کا تصویر دیکھ لیا اور تم نے ساری داستان سنائی اور کہا…. کون جانتا تھا کہ وہ ایسا حساس ہوگا، جب گلزمین کا عشق اتنا شدت اختیار کریگی کہ لوگ آخری حد بھی پار کر دیتے ہیں اور ہم کیسے بیان کر سکتے ہیں، ہم تو تجزیہ کرنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں کوئی غلطی سرزد نہ ہو. یہ کوئی فدائی بتا سکتا ہے۔ اور بائی پاس کے ہوٹل کی دروازے سے تم نے آنکھیں پھیلا کر وادی شال کو دیکھتے ہوئے کہا ” من ء- سک دوست بیت شال منی پیر ءُ عاجزیں مات ایں ” بلال یاد ہے نہ اس پہ میں نے کہا کہ اب مزید اوور اکٹنگ نہیں کرو اور تم نے ہنس کر بات ہی ٹال دی .
بلال مجھے شکوہ ہے، تم سے ناراض ہوں، تم نے لیڈری کے فرائض تک انجام نہیں دیئے۔ تم اُس احساس کی شدت سے آگاہ تھے، تم جانتے تھے کہ شیراک، درویش اور صدام عشق کے کونسے منزل پہ تھے. تم نے کیوں وہ جذبہ، وہ احساس، وہ خوشی، وہ نظریہ، مجھ سے چھپا لیا جسے میں آج تک بیان نہیں کر پا رہا ہوں۔
میں نے پوچھا بھی تھا اگر یاد ہوکہ آج کل تم بہت لکھ رہے ہو؟ اور تم نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یار نہ لکھوں بے چین ہوتا ہوں، بلال میں تم سے بچھڑا نہیں ہوں ویسے بھی تمھاری جتنی ذمہ داری میں اُٹھا نہ پاؤں گا، بس رنج ہے کہ پہلے رابطے تھے، اب کٹ چکے ہیں۔ تم سے وابسطہ میرا اثاثہ بس پُرانے میسجز ہیں، جنہیں میں ہر روز دیکھتا ہوں، ہنستا ہوں، روتا ہوں۔
کاش میں تمہیں سُنتا، تم وادی ءِ شال پر اپنے عشق کا چادر اپنے الفاظ سے اوڑھ رہے تھے، کاش تم بتا دیتے تمھارے دل میں دشمن کے لیئے کتنی نفرت بھری ہے۔ تم بلوچستان کے تمام عشاق کو شرمندہ کر دو گے۔ تم بتا دیتے کہ خاران کی صحراؤں میں جب دوپہر کی لو گذرتی ہے، تو تم اُسے کیسے محسوس کرتے ہو۔ کاش تم بتا دیتے کہ شور کی پہاڑوں پر جب برف پڑتی ہے تو تمہیں کونسی کیفیت گھیر لیتی، جو تم شہید میرل جان سے جاننا چاہتے ہو. کاش تم بتا دیتے کہ بولان کے پہاڑوں پر موسم ء بہار میں جب گواڑخ جاڑیوں سے شبنم کے قطرے گراتے ہوئے سر اُٹھاتی ہیں، تو اُس کی خوشبو باد صباہ میں پھیل کر گھاٹ کی چوٹی پر بیٹھے ہوئے تجھے کونسی گیت گُنگنانے پہ مجبور کرتی۔
بلال جب تم دشمن سے نبرد آزما تھے اِن دونوں میں گاؤں میں تھا، رات کو والد صاحب نے بی بی سی سنا تھا۔ مجھ سے کہا کہ چائنا ایمبیسی پر خود کُش حملہ ہوا ہے ذمہ داری بی ایل اے نے لی ہے۔ پتہ نہیں کیوں میرا شک فوراً تم پر گیا اور پھر صبح کسی دوست نے کہا اخبار میں نام آئے ہوئے تھے، ایک نام جلال تھا۔ میری حواس اُڑ گئے اور فَخر سے مسکرا دیا۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہوگیا تھا کہ میں نے فوراً کہہ دیا تھا میرا دوست تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔