اِشکامیں زند
سیاسی الجھن سے لیکر ناتجربہ کار لیڈر تک کا سفر
تحریر. الماس بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں ایک عام فرد ہوں۔ بلوچ معاشرے میں سانس لے رہا ہوں۔ یہاں کے زمینی اسٹرٹیجک اہمیت سے آگاہ ہوں۔ جس پیمانے تک سیاست کا حصہ رہا ہوں، جس حد تک سیاست کو پہچان سکا ہوں، اپنی شخصیت کے عین مطابق ہر ممکن جدوجہد کے بعد بلوچ کی سیاسی نفسیات کو سمجھنے کی تگ و دو میں بھی حصہ بن چکا ہوں۔ اس لیئے اپنے سیاسی اور قومی الجھنوں سے واقفیت رکھنے کے باوجود اگر مجھ سمیت کوئی بھی انسان یہاں کے معاشرتی اقدار اور تمدن سے بے پرواہ ہے، وہ زندہ لاش میں اگر شمار کی جائیں تو بہتر ہوگی۔ اور وہ جو سیاست میں ہوتے ہوئے بھی اس میں موجود مختلف قسم کی ذہنیت پر کچھ لکھ نہ سکیں اور کچھ رائے نا رکھ سکیں میرے چھوٹے سی عقل کے مطابق وہ سیاست نہیں وقت برباد کر رہے ہیں۔ چونکہ میں بی۔ایس۔او کے سیاست کا حصہ رہا ہوں، پہلے تو میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں جس کی وجہ سے بہت کچھ سمجھنے اور جانچنے کے اس نہج تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ جو سوچ سکا کہ سیاست میں ہوتے ہوئے بھی شاید مجھ میں اب تک قابلِ ستائش سیاسی اور معاشرتی تبدیلیاں پیدا ہوا ہی نہیں ہو، مگر کہتے ہیں کہ آرٹ اور رائے آزادی دو ایسی چیزیں ہیں جو سیاست سے پہلے کسی بھی معاشرے اور اس میں رہنے والے لوگوں کیلئے تبدیلی کا شمع بن سکتے ہیں اور حقیقتاً ایسا ہی ہے، وہ الگ بات ہے کہ ہم اب تک سمجھ نا سکیں ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ اسٹوڈنٹس تنظیم میں کئی قسم کے ذہنیت رکھنے والے اشخاص، کچھ مختلف مراحل سے گذر کر اور باقی بغیر سرگرمیوں کا حصہ ہوتے ہوئے اُبھرتے ہیں اور اس سے ہوتے ہوئے سیاسی خلا کو پُر یا قبضہ کرنے میں موزوں سمجھے جاتے ہیں اور لیڈرشپ جیسے عظیم اعلیٰ مقام پر قدم جما لیتے ہیں یا جمایا دیئے جاتے ہیں۔ پہلے تو اگر سچے دل اور تجربات سے اخذ شدہ حقیقی نتیجے پر بحث کی جائے، تو ہم اندرونی ساختیات سے لیکر ایک عام ورکر تک شدید قسم کی نرگسیت کے وائرس سے تباہ کن حد تک متاثر ہوچکے ہیں، اگر نتيجے دیکھے جائیں تو ہمارے سرکلز بہت ہی کمزور ہیں، بلکہ اب منجمد ہوکے نہ ہونے کے برابر ہوچکے ہیں۔ ہمارے ہاں پسند اور نا پسند، جنسی تقسیم کی وجہ سے ایک محضوص گروہ کو زیادہ ترجیح اور رابطے میں رکھنا جیسے اور کئی قسم کی غیر سیاسی رجحانات جنم لے چکے ہیں۔ اُن میں سے بحث و مباحثے کا فقدان، سرگرمیوں کو محدود رکھ کر مکمل طورپر موبائلوں میں قید رکھنا، حالت اور سرکاری دباؤ کا بہانہ بنا کر ایک محدود سرکل کو یکتا مکمل سمجھنا اور انفرادی تعلقات بڑھانے جیسے ذہنیت نے ہمیں کئی سیاسی اصطلاحات کے حقیقی معنوں سے محروم کئے ہوئے ہیں۔
ہمارے ہاں انفرادیت، انفرادی جی حضوری، قبائلی نظام کی ناقابلِ یقین استحصالی روایت، رنگ و صورت، نسل اور جنسی تقسیم کی رجحان جیسے سیاسی اور معاشرتی رکاوٹوں نے براہ راست بلوچ سیاست پر اثر ڈالے ہیں، خاص کر اسٹوڈنٹس پولیٹکس جس سے میری تعلق رہی ہے۔ ہم اگر کسی اور مکاتب فکر کی نفسیات اور شخصیت پر روشنی نہ ڈالیں، تو ایسے نمونے میں نے ترقی پسند، آزادی پسند اور آزادخیال سوچ رکھنے والے دوستوں میں بھی کثیرسطح میں موجود پایا ہے۔ نتیجتاً ایسے چیزوں کی موجودگی سیاسی ماحول کو بُری طرح اثر انداز کرتے ہیں بلکہ مزید الجھنوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ اُنہی سرکلز اور لوگوں میں موجود وہ ورکرز اس بات کا درست گواہی دے سکتے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ وہ سچ اور حقیقت پسند مزاج رکھیں مگر بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اتنا خلا پیدا کیا گیا ہے کہ تنقید کرنے سے پہلے باقاعدہ اپنے رسمی اجلاسوں کے شروعات میں اعلان کروائے جاتے ہیں کہ کسی کو بھی غیر اصطلاحی تنقید کا اجازت نہیں ہے اور اگر کوئی تنقید کرنا بھی چاہے، وہ کتنی بھی اصطلاحی اور تعمیراتی ہو اُسے ہم انفرادی کہہ کر اُلٹا ورکر کو ایسا کوئی جواب دینگے کہ جو نتیجتاً آگے مزید کوئی تنقید کرنے کا جرات اور جستجو جیسی صلاحیت سے آہستہ آہستہ دستبردار کریگا۔ اس لیے جناب Will Rogers نے کہا تھا کہ جب کوئی شخص سیاست کا مشاہدہ کر لیتا ہے، تو اسے بہت جلد یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر ایک پارٹی دوسرے سے بدتر ہے۔
ہمارے معاشرے میں موجود اس قسم کے تجربات موجود ہیں، جو اپنے کیریئر میں اس بات کا ثبوت دے چکے ہیں بلکہ ہمارے ہاں سیاسی تنظیموں سے لیکر پارٹیاں بدترین قسم کے تناوُ کا شکار بن چکے ہیں۔ انہی غیر سنجیدہ اور غیر ضروری رجحانات کی وجہ سے سیاسی ورکرز سے لیکر عام بلوچ نوجوان طبقے تک میں ایک ذہنی تناؤ اور سماجی الجھن جیسی شکل اختیار پاچکا ہے۔
سیاسی ماحول میں حقیقی پولیٹیکس کا نہ ہونا اور بی۔ایس۔او کے مرکزیت میں کچھ لوگوں کو پہچان کی بنیاد پر زمہ داری سونپنا اور کہنا آگے چل کر سکھ لینگے۔ بہت ہی خطرناک اثر ڈال چکے ہیں، جس کی وجہ سے بی۔ایس۔او میں موجود سیاسی ورکرز کسی حد تک اضطراب کا شکار ہوکر گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔ اور مزید نئے ورکرز کیلئے دروازے بند کر چکے ہیں۔
ونسٹن چُرچل نے بہت خوبصورت انداز میں کہا تھا، سیاست ایک ایسی ذہنیت ہے جو کل، اگلے ہفتے، اگلے مہینے اور آنے والے سال کا پیشنگوئی کر سکے کہ کیا ہوگا، اور اگر ویسے نہیں ہوا تو بیان کرسکیں کہ وہ کیا سبب تھے جس کی وجہ سے وہ عمل رونما نہیں ہوا۔ اگر بلوچ کے پاس ایسے سیاسی رہنما موجود ہیں، تو میری رہنمائی کریں، جتنی حد تک میرے مشاہدات میں ہے، ایسا کوئی مثال ملتا نہیں کیونکہ ہمارے سیاسی رہنماؤں میں چناو کا ایسا کوئی پیمانہ موجود تک نہیں، ہمارے سب سے مناسب لیڈر رابطے، تعلقات، پہچان، سیاسی رشتہ داری، بولنے کے فن، انفرادی واقفیت جیسی صلاحیتوں پر پرکھے جاتے ہیں جو ہمیں بربادی کے علاوہ کہیں اور نہیں لے جارہاہے۔
بلوچ سیاسی اکٹیوسیٹ جنہیں اگر لیڈر کہا جائے، مناسب نہیں رہیگا کیونکہ اب تک وہ تربیتی مراحل سے گزرنے کے ابتدائی اسٹیج پر ہیں، جو وہ خود ہر جگہ علی اعلان بولتے ہوئے اپنی علمِ ظریفی کا مظاہر کرتے ہیں، وہ اب تک سیاسی رویہ، برداشت، سیاسی طریقے سے بات چیت، انفرادی اور تنطیمی رشتے میں فرق، نئے آنے والے ورکرز کو گروہی سیاست، مطالعے جیسی سیاسی بلوغت پانے والے بنیادی اکائیوں سے محرومیت کے شکار ہیں اور ان سب کے بیچ سنڈویچ بن کر ذہنی اضطراب کے شدید شکار ہیں۔
اس جیسے کیفیت میں سیاسی الجھن بغیر بتلائے مہمان کی طرح گھس جاتا ہے، جو ہمارے بیچ بھرپور انداز میں موجود ہے۔ اس لیئے Paul Wellstone کہتا ہے سیاست کوئی پیشن گوئی نہیں ہے اور ناہی مشاہدات پر مبنی ہے۔ سیاست وہی ہے جو ہم کرتے ہیں، سیاست وہی ہے جو ہم کرتے ہیں، سیاست وہی ہے جو ہم تخلیق کرتے ہیں۔ لیکن ہم جس چیز کے لیئے کام کرتے ہیں، اس کے ذریعے ہم امید کرتے ہیں اور ہم تصور کرنے کی جرات کرتے ہیں۔ کہنے کا مقصد ہے جو کام ایک سیاسی ورکر سرانجام دیتا ہے، وہ اسکا سیاسی مشاہدہ بن جاتا ہے، گھر بیٹھے موبائل پر ہر کام کا جائزہ لینا کھبی بھی سیاسی رجحان نہیں کہا جاسکتا۔ بلکہ مزید الجھن کا سبب بنے گا اور ورکرز کو انتہائی خوفناک حد تک مایوسی کی جانب راغب کریگا۔
لہٰذا ہمارے ہاں موجود جتنی بھی الجھنیں ہیں، ان سب کا ایک ہی نفسیات ہے۔ ہمارے ہاں برابری، لبرل ازم، حق کے منصفانہ نعروں کے موجد اور لگانے والے سمیت تمام تر ترقی پسند اور انقلاب کے پرچار کرنے والے خود سیاست کو جانچنے سے قاصر ہیں، ہم تجربات اور انفرادی توسط سے سیاسی رجحانات سے متاثرہ وہ لوگ ہیں، جنہیں سیاست کے پہلے حرف سے کوئی تعلق نہیں۔
اور اس کے باوجود انسان چاہے جتنا بھی علم رکھتا ہو، اگر اس سے اُسکی ذہنی الجھن اور نفسیاتی کیفیت دن با دن ابتر ہوتا جارہاہو، وہ مایوسی کی طرف راغب ہوگا۔ ایسے حامیوں اور مایوسی کو صرف ایک اچھا لیڈر ہی ختم کرسکتا ہے، جو بلوچ سیاست میں بدقسمتی سے شروع دن سے لیکر اب تک نظر نہیں آیا ہے۔
اس سے بڑھ کر معاشیات اور سیاسیات کے غیر ہموار راستے اور تعلیمی شعبوں میں نسل کے آنے والے بچوں کی صاف نظر آتا ہوا تباہی سے دوچار مستقبل سمیت بلوچ دانشوروں، لکھاریوں کا نا سمجھنے والی موقف اور انکے لٹریچر کے شعبے میں غیر پیداوارنہ تخلیقات کچھ ایسی باتیں ہیں، جنہیں کوئی بھی تعلیم یافتہ بلوچ تسلی بخش سمجھ کر گہری نیند سو نہیں سکتا۔ مگر پھر بھی اظہار کا حق کوئی کسی سے ضبط نہیں کرسکتا۔ فرد کو تحریکوں میں کھلی چھوٹ ملتی ہے وہ لکھیں اور تعمیراتی انداز میں حامیوں کی نشاندہی کرکے انکا سدباب کریں، تب تحریکیں کامیابی کی طرف راوں دواں ہونگے۔
گبرئیل گارشیا مارکیز کہتا ہے آپ کا سماج اور اس میں رہنے والے لوگوں کی معاشی اور سیاسی معاشرہ جب آپکو قلم اٹھانے پر مجبور کردے، تو آپ انکی زندگی میں رونما ہونے والے ہر چیز پہ لٹریچر میں فکشن کی فن کو بروئےکار لاکر شاہکار انداز میں لکھ سکتے ہو۔ مگر لکھاری کو جب پڑھنے والا ہو تب لکھاریوں میں اضافہ ہوگا۔ ہمارے معاشرے کا سب سے درد ناک حقیقت یہی ہے کہ ہمارے راجی تحریک نے اب تک ایسا کوئی بھی لکھاری پیدا کیا ہی نہیں ہے۔ لکھاری تو اپنی جگہ یہاں اب تک ہم اچھے پارٹی اور تنظیم بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں، جو اچھے فورم سمیت تربیتی سرکلز کا انعقاد کرسکیں، جو باقاعدہ پڑے اور تجزیہ کرسکیں۔ انقلابی حضرات کتابوں کا امبار لگا تو لیتے ہیں مگر آدھی رات تک PUBG کھیلتے ہوئے بلوچستان پوسٹ کے آرٹیکلز کے عنوانات دیکھنے تک کی تکلیف نہیں کرتے۔ کہتے ہیں جناب برزکوہی بہت لمبا اور مشکل لکھتا ہے، باقی بچے کچھے لکھاریوں سے وہ آشنا نہیں، لہٰذا کوئی ضرورت نہیں وقت برباد کرنے کا کیونکہ دو دو آئی فونز، تنظیمی دوستوں سے رابطے اور گپ شپ کیلئے وقت کم پڑ جائیگا۔
مجھے یاد ہے ایک سال پہلے جب بی ایس او کے کسی رہنما نے کوئی بحث شروع کیا تھا تو بشمول میں سب نے لکھنے پر زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں لکھنے والوں کی اشد ضرورت ہے تو کچھ دوستوں کو ذمہ داری دینے کے بعد انکے آرٹیکلز چھپنے شروع ہوگئے۔ تو انہی تنظیمی دوستوں نے دادرسی اور آفرینی ماحول کو جنم دیا۔ اور کسی نے بھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ دیکھا جائے جو کچھ لکھا جارہا ہے، کیا واقعی وہ صحافتی اقدار اور اصولوں کے عین مطابق ہے کہ نہیں۔ چونکہ میرا کئی سالوں سے صحافت سے وابستگی رہا ہے، جتنا میرے علم میں تھا بار بار بتانے کی کوشش کرتا رہا، سُنا سب نے لیکن عمل کسی نے نہیں کیا، ٹھیک اسی طرح سے جاننے والوں کے آرٹیکلز کے عنوان دیکھنے کے بعد بہت ہی کم لمحات میں آفرین دینے کا کلچر ابُھر گیا اور لکھنے کا معیار یہاں تک پہنچ گیا کہ لٹریچر سے نا واقف سیاسی ورکرز لٹریچر کے بارے میں لکھتے رہے اور شاعری سے نا واقف سیاسی لیڈران صاحب شاعر بن گئے۔ لیکن میں مایوس اور دلبرداشتہ نہیں ہوا کیونکہ مجھے پہلے سے پتہ تھا ہماری سیاسی کامریڈوں کے اپنے اپنے الگ الگ آئیڈیل دنیا ہیں، جو ایک ہی موقف پر روک کر تسلی نما اور خیالی دنیا کی شکل اختیار کرتی ہے۔ اور اسی پروسس سے ہم سیاسی کیڈر، لیڈرز اور لکھاری پیدا کر رہے ہیں، جن کے ہاں Rogers کی کہی ہوئی بات کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے۔ جس نے کہا تھا، زندگی میرے لئے کوئی مختصر موم بتی یا مشعل کی مانند نہیں ہے یہ ایک قسم کی شاندار مشعل ہے، جیسے میں نے اس وقت تک پکڑ کر رکھا ہے اور اسے میں مستقبل کے نسلوں تک حوالے کرنے سے پہلے چمکیلی انداز میں جلانا چاہتا ہوں۔ کیونکہ میرے آج کے جلے ہوئے، مشعل کل کے آنے والے لوگوں کیلئے مشعل راہ ثابت ہو، نا کہ ان کیلئے تاریکیوں کا سبب بنیں۔
ہمارے سیاسی سنگت، اس مشعل کو اضطرابی کیفیت میں جلا کر روشنی صرف خود کو دینا چاہتے ہیں اور آنے والے نسل کیلئے صرف راکھ کے علاوہ کوئی بھی چیز رکھنے کا سوچ تک نہیں رکھتے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔