انتظار کرتی آنکھیں منتظر ہیں یہاں
تحریر۔ جویریہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسان نے جب سے اس دنیا میں آنکھیں کھولیں، تو کسی نہ کسی چیز کا انتظار اسے رہتا ہے۔ چاہے وہ ایک عظیم مقصد ہو یا کوئی کامیابی۔ ایسے ہی اگر بات کی جائے تو ایسی بہت سی آنکھیں گذشتہ کئی سالوں سے منتظر ہیں، لیکن یہ انتظار کسی مقصد کا نہیں بلکہ اپنے جگر گوشوں کا ہے جو کئی سالوں سے زندانوں میں بیڑیوں سے جکڑے ہوئے ہیں۔ ایسے بہت سی گھرانوں کے افراد جو اس طویل انتظار میں ہیں، آج بھی ان کی آنکھیں راستوں کو تک رہی ہیں اور بہت سے لاپتہ افراد کے لواحقین اسی انتظار کے ہاتھوں اپنی بینائی کھو بیٹھے ہیں۔ بلوچستان میں آج بھی بہت سے گھرانوں میں اس انتظار کا دیا جل رہا ہے لیکن یہ انتظار اتنا طویل ہوچکا ہے کہ اپنے انجام کو نہیں پہنچتا، اگر دیکھا جائے تو آج بھی یہ آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں جو کہ کم ہونے کا نام تک نہیں لیتیں اور اس انتظار کی شدت آنکھوں میں آج بھی موجود ہے۔ لیکن افسوس کہ اس مسئلے پر کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا جارہا۔ ان آہوں اور سسکیوں کی آوازیں حکمرانوں کے کانوں تک نہیں پہنچتی جو کہ کئی سالوں سے بلوچستان میں گونج رہی ہیں۔
ایسے ہی بلوچستان کے ان فرزندوں میں 3 ایسے فرزند بھی موجود ہیں، جو گذشتہ دس سالوں سے خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہیں۔ ان میں کبیر بلوچ,عطاء اللہ بلوچ اور مشتاق بلوچ شامل ہیں۔ ان کو دس سال کا طویل عرصہ مکمل ہوچکا ہے اور آج بھی ان کے لواحقین کی آنکھیں ان کے لوٹنے کے لیئے منتظر ہیں۔ کبیر بلوچ,عطاء اللہ بلوچ اور مشتاق بلوچ کو 27 مارچ 2009 کو مین آر سی ڈی روڈ خضدار سے اغواء کیا گیا تھا، جو تا حال لاپتہ ہیں اور ان کا کچھ بھی حال احوال نہیں۔ حکومتی اداروں کی جانب سے بھی اس معاملے میں ناکامی ہی دکھائی دے رہی ہے۔ بلوچ نوجوانوں کی اغواء نما گرفتاری سراسر ظلم کی جانب اشارہ ہے جو کہ دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔عدالتیں محض انصاف کے نام تک ہی محدود ہیں۔ یہاں انصاف کا کوئی نام و نشان نہیں۔ سوتیلی ماں جیسی سلوک رکھنے والا یہ ملک کبھی بھی اپنے شہریوں کو انصاف فراہم نہیں کرسکتا بلکہ انصاف کے نام پر عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکاجا رہا ہے۔ جھوٹے JIT میٹنگز کے ذریعے لاپتہ افراد کے لواحقین کو دلاسہ دیا جارہا ہے، حالانکہ حقیقت اسکے برعکس دکھائی دے رہا ہے۔ نوجوانوں کی گمشدگی کے معاملے میں خاموشی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حکومت کو اس سنگین مسئلے سے کوئی دلچسپی نہیں ہر حکمران اقتدار کی کرسی سنبھالنے سے پہلے اس مسئلے کو مدِنظر رکھتا ہوا بلوچوں کی دلجوئی کرتا ہے لیکن جونہی اقتدار میں آنے کے بعد کرسی کی عیاشی میں بدقسمتی سے ہمارے اس درد اور تکلیف کو معمولی سمجھا جاتا ہے۔
ایک دور تھا، جب حکمرانوں کو ایک جانور سے برتے ناانصافی کا بھی ڈر رہتا لیکن اس دور کے حکمرانوں کی اس غفلت کو دیکھا جائے تو یہاں انسانوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس مسئلے پر ہر حکومت نے بات کی لیکن اسکی تہہ تک اور اس پر تحقیق کرنے کو بہت کم ملتا ہے۔ جب بھی کوئی اپنے پیاروں کی بازیابی کےلئے آواز اٹھاتے ہیں تو ہر صورت انکی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے، کہیں کہیں دس سالوں سے تو کہیں کہیں اس سے بھی زائد عرصے سے لوگ لاپتہ ہیں اور ایسے ہی انتظار کرتی کہیں آنکھیں منتظر ہیں یہاں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔