امیدیں تو بہت تھیں! لیکن؟ – احمد خان زہری

538

امیدیں تو بہت تھیں! لیکن؟

پہلا قسط

تحریر: احمد خان زہری

دی بلوچستان پوسٹ

بابو نوروز خان زرکزئی کے کردار اور جہد کے حوالے سے بلوچستان میں رہنے والا ہر غیرت مند فرد تو بخوبی واقف ہے- بابو نوروز اپنے فکر و مؤقف پر آخری سانس تک ڈٹے رہے- لغور دشمن کی کال کوٹھڑیوں اور عقوبت خانوں میں بند اُسے للکارنے کے ہنر سے اچھی طرح سے آشنا تھے، ناپاک ریاست کی غلامی سے انکار کرکے اپنے فرزند و دیگر رفقاء کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا- حالانکہ وہ ایک کم ظرف دشمن کے قید خانے میں بند تھا اور بابو نوروز خان، اس غلامی سے انکار کی سزا سے بخوبی آگاہ تھا کہ اس کی سزا صرف اور صرف موت ہے، لیکن بابو نوروز کے قدم دشمن کے خوف سے زرہ برابر پیچھے نہیں ہٹے اور نہ ہی دل ہی دل میں خوف کے سبب دشمن کی غلامی کو تسلیم کیا۔

بابو نوروز مولہ و کیل کے پہاڑوں میں مورچہ زن ہوکر بھوک، پیاس مظلومیت کی درد کو برداشت کرتا رہا لیکن ناپاک ریاست کے کسی بھی بلوچ دشمن عزم کو پورا ہونے نہیں دیا- بابو نوروز خان دشمن سے دُو بدو لڑتے رہے نہ کبھی وسائل کی کمی کو مد نظر رکھ کر جنگ کی شدت میں کمی لائی اور نہ ہی خود کو کمزور اور دشمن کو طاقت ور سمجھ کر محاذ جنگ سے بندوق کی گولی کی آواز کو بند کیا بلکہ آخری وقت تک دشمنوں سے پتھروں کی مدد سے لڑے اور دشمن کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوئے- فکری سنگتوں کی شہادت نے، وسائل کی کمی نے، اپنے جسم کی کمزوری نے اور نوے سال کے بڑھاپے نے کبھی بھی بابو نورز کو مایوس نہیں کیا اور نہ ہی اس کے قدم دشمن کے سامنے کبھی لڑ کھڑائے، کیونکہ بابو نوروز خان جانتا تھا کہ ہمارے پاس حوصلہ، ہمت اور دشمن سے لڑنے کے لیئے سانسیں بھی ہیں- بھلا لغور دشمن ایسے مضبوط ارادوں کے مالک کو جنگ میں کیسے ہَرا سکتا تھا۔

دشمن نے بابو کے آستین کے سانپ استعمال کرکے قرآن کے ذریعے دھوکے سے پہاڑوں سے ساتھیوں سمیت اتار کر اپنے زندانوں میں ڈال دیا، بلوچ دشمنی میں ہمیشہ آستین کے سانپوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے لیکن بابو نوروز خان بھی آخری سانس تک وطن کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا عزم رکھتا تھا اور دشمن کے اپنے ہی عقوبت خانوں میں اس کے سامنے ہربوئی کے پہاڑ کے مانند کھڑا تھا۔

جس طرح بٹے خان نے بابو نوروز کے حلالی بیٹے ہونے کا ثبوت دے کر بلوچ قوم کی بقاء، آسائش اور آزاد ریاست کی تشکیل کے لیئے پھانسی کے تختے پر لٹک گئے لیکن دشمن سے کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کیا-

بابو نوروز خان کے باقی فرزندوں سے بلوچ قوم کو کافی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ بھی بابو نوروز اور اپنے بھائی کے نقش قدم پر چل کر بلوچوں کی لاچاری اور بدحالی کے خاتمے اور مظلوم ماں بہنوں کے دلوں پر لگے زخموں کی مرہم کا سبب بنیں گے، لیکن بازی تو پلٹ چکی تھی۔

بابو نوروز خان جس نظام کے خاتمے کا عزم رکھتا تھا، اسی کو تقویت دینے اور اپنی معتبری و نوابیت کو اجاگر کرنے کے لیئے بابو کا بیٹا امان اللہ خان نے میدان میں قدم رکھا- کچھ غنڈے، موالی، شرابی، کبابی، سیاہ کار کو پناہ دے کر بندوق تھما دیا اور اپنے گھناؤنے مقاصد کے حصول کے لیئے اپنے صفوں میں شامل کرتا رہا اور کرائے کے قاتلوں کو ہمراہ و دوست بنا کر مظلوم زہری قبائل پر مختلف طریقوں سے ظلم و ستم ڈھانے کا آغاز کردیا- نوابیت کے نشے میں مدہوش امان اللہ خان اپنے اِن ہمراہوں کا سہارہ لے کر قبائل کو کسی وڈیرہ ٹکری کے ذریعے مختلف مسائل میں پھنسا کر پھر ان کا صلح کرکے چہارم وصول کرنے کا ایک اڈھ کھول دیا، کیونکہ یہی وہ دھندہ تھا کہ مظلوموں کو چہارم کے ذریعے لوٹ کر اپنی بےغیرت فوج (شرابی، کبابی، سیاہ کار اور کرائے کے قاتلوں) کا پیٹ پال سکے- زہری قبائل پر غلبہ پانے کے ارادے نے امان اللہ خان سے وہ حرکات کروائے کہ کبھی جو تاریخ میں کسی ظالم، وحشی اور درندے کے حصے میں گِنے جاتے تھے-

کم ہی وقت میں وحشیانہ درندگی ایسی شکل اختیار کرچکا تھا کہ اپنے قبیلے کے فرد ( محمد انور زرکزئی) کو انہی کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیا، کیونکہ امان اللہ خان اپنے نوابیت کے سامنے کسی کو برداشت کرنا نہیں چاہتا تھا- محمد انور کو قتل کروا کر پورے زہری قبیلے کو یہ پیغام دیا کہ میرے نوابیت کے سامنے رکاوٹ بننے والے ہر طاقتور اور مظلوم کا حشر اسی طرح ہوگا۔

زہری قبائل پر غلبہ پاتے ہی وحشیانہ اعمال میں بہت زیادہ تیزی لائی گئی- اب ایک شاخ کو دوسرے سے لڑانا، کسی کو اغواء کروانا، کسی بے قصور کو طاہر رحیم کی طری روڈ پہ قتل کرنا، کسی لاچار کے گھر چوری کروانا، کسی مظلوم کو روڈ پر لوٹنے والے اعمال سرفہرست تھے۔

متاثرہ خاندان یا فرد کو اپنے بیٹھک میں بلا کر پھر صلح کرانا، کسی کی زمین و جائیداد کا فیصلہ کرکے، کسی کے لَج و غیرت و ناموس کا فیصلہ کرکے اپنی نوابیت کو زہری قبائل پر مسلط کر رہا تھا اور کر رہا ہے۔

کیا بابو نوروز خان نے اسی قانون کو رائج کرنے کے لیے ایسی عظیم قربانی دی تھی؟ بالکل نہیں!

بابو نوروز خان تو وہ عظیم ہستی تھے کہ جن کے پکارنے پر زہری قبیلے نے ناپاک ریاست کے قبضے کے خاتمے کے لیئے بیس سے تیس بھاگیا (مویشی چرانے والا)، بزغر اور غریب و لاچار خانہ بدوش بابو کے ساتھ ایک ہی صف میں شامل ہوگئے- ان کو پتہ تھا کہ ہمارے اس بغاوت کا انجام صرف موت ہے لیکن پھر بھی بابو کا ساتھ مرتے دم تک دیا-

ماضی میں جس طرح بلوچ قوم کی خوشحالی کے لیئے جدوجہد کرنے کے لیے زہری قبائل کو ایک ہونے کا درس دیا تو حال ہی میں امان اللہ خان نے زہری قبائل کو اندھیروں میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا- اپنی نوابیت کو دوام پہنچانے کے لیئے بہت سے گناہ کا مرتکب ہوا لیکن مَنشا یہی تھا کہ میرے نوابیت کا ہر کوئی گیت گائے، میرے غلامی میں زندگی بسر کرے اور وہ اپنے اس گہناؤنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔
(جاری ہے)

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔