اختلاف رائے کو سنا جائے – عبدالواجد بلوچ

828

اختلاف رائے کو سنا جائے

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اختلاف رائے کا وجود فطری امر ہے اور اختلاف عموماً وہاں پیدا ہوتا ہے، جہاں کوتاہیاں ہوں۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اختلاف کے فہم میں فرق ہونے کی وجہ سے ممکن ہے وہاں اس کے سبب علم میں کمی و بیشی بھی ہو جبکہ بعض اوقات چیزوں کو پرکھنے کا معیار (Criteria) اور اصول و ضوابط میں فرق اختلاف کا باعث ہوتا ہے. ان سب کے علاوہ ایک اور وجہ، جو عموما ًہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے کہ جو کوئی اختلاف رائے سیاسی بنیادوں پر رکھے تو دوسری جانب بجائے علمی پیمانے پر اس اختلاف کا احترام کیا جاتا، اس اختلاف رائے کو ضد، تعصب اور ’’انا‘‘ کے بھینٹ چڑھایا جاتا ہے، اس عمل سے ہم جتنا بچیں گے اس سے تحریک کا فائدہ ہوگا خدا ہمیں اس شر سے محفوظ رکھے، دوسرے شخص کے ضد اور تعصب میں آنے کی وجہ سے بھی بعض اوقات دوریاں پیدا ہوتی ہیں اور ہو چکی ہیں، جس سے زیادہ تعداد میں جب برداشت نے جواب دیا تو لوگ تحریک سے کنارہ کش ہوگئے.

سیاسی کارکن ہونے کے ناطے میں بھی اس عقیدے پر ایمان رکھتا ہوں اور جس طرح آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کی بات دھیان اور توجہ سے سنی جائے، بعینہ دوسرا شخص بھی یہی چاہتا ہے کہ اس کی بات بھی دھیان اور توجہ سے سنی جائے۔ اس وجہ سے اخلاقیات اورتہذیب آپ دونوں کے لیے یہ دائرہ کھینچتی ہے کہ مخاطب کی بات کوپورے غور سے سنیئے، ایسے کہ جیسے آپ اس کی بات کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نہ کہ آپ کی باڈی لینگویج (Body language) چیخ چیخ کر بتلا رہی ہو کہ آپ تو محض بات ختم ہونے کے منتظر ہیں اور بات ختم ہوتے ہی اپنی رائے تو تھونپنے کی کوشش کریں گے. انہماک اور لگن دوسرے کی بات سننے کی اہمیت اس وقت مزید واضح ہوجاتی ہے، جب ہم انسان ہونے کے ناطے اس بات پر یقین رکھیں کہ غلطی کا امکان مجھ سے بھی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں المیہ یہی ہے جب سیاسی معاملات پر کوئی اختلاف رکھے، کوئی سوال پوچھے، سیاسی کارکن کے سیاسی ہونے کی دلیل ہی یہی ہے کہ وہ پیچیدہ معاملات پر سوال کرے، پوچھے، لیکن میں نے ہمیشہ دوسری جانب بجائے ان سوالات و اعتراضات کا مدلل و سیاسی رویے سے جواب دیا جاتا ہمیشہ آمرانہ طرزِ سوچ اپنا کر سوال کنندہ کو خاموش کرانے کے لئے نت نئے حربے کارمرز کئے گئے.

کہتے ہیں سوشل میڈیا اور عام میڈیا کا سہارا نہ لیا جائے، اداروں کے اندر رہ کر سوالات کئے جاسکتے ہیں لیکن جب جب اداروں کے اندر سوالات کئے گئے تو وہاں بات ٹال کر ہمیشہ سوالات کے رخ بدل دیئے گئے اور بالکل ہی دوسری جانب اپنے مسلط کردہ منافقین و چاپلوسوں کے ذریعے یہی کوشش کی گئی، وہ بھی سوشل میڈیا کے اندر جو بھی سوال کرے، نتقیدِ اصلاح کرے، انہیں ایسا متنازعہ کریں کہ کل وہ اس پوزیشن میں نا ہو کہ دوبارہ سوال پوچھے۔

میں بذاتِ خود اس ظالم رویے سے متاثر ہوا ہوں، وہ اس طرح کہ میں نے جب جب سیاسی حوالے سے اختلافات رکھے تو ایسے ایسے لوگوں کے زبان پر اپنے لئے تہمتیں، الزامات سنے، جنہیں میں نے اپنی سیاسی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا اور نا ہی ان سے میرا واسطہ پڑا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے رویوں کو اس طرح بھیانک شکل میں وارد کرنا انہی سیاسی رہنمایان کی مرہون منت ہے جو جمہوری سیاست کے اندر آمرانہ سوچ کے دلدادے ہیں.

دنیا میں سیاسی حوالے سے دوسرے اقوام کئی مواقعوں پر ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے تھے لیکن حدود و قیود کا خیال رکھتے ہوئے، اختلاف رائے کی وجہ سے ایک دوسرے کا ادب ، احترام، ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ دل متحد رہتے تھے، فریقین ایک دوسرے کی عظمت کے معترف رہتے تھے۔ بعض اوقات ایسا غلط فہمی کی بناء پر ہوتا تھا اور جونہی عدم علم سے علم کے زینے پر قدم رکھتے تو رائے کو بے دھڑک بدل ڈالتے تھے۔ کیا ہم میں سے کوئی اتنی جرات کر سکتا ہے کہ اپنی بات کا ضعف واضح ہو جانے پر کھلے دل سے اعتراف کریں؟ کہ ہاں میری رائے غلط تھی۔ میں غلطی پر تھا۔ ایک وجہ جو ہمارے معاشرے میں پائی جاتی ہے ضد، کینہ، حسد، بغض، عناد اور انا ہے۔ اور دوسرے شخص کے تعصب اور ضد میں آنے کی وجہ بعض اوقات ہمارا اپنا رویہ بنتا ہے۔ جیسے ہم اپنی بات کو صحیح ، ٹھیک ،اور خود کو حق پر سمجھ رہے ہوتے ہیں، ہمارا مخاطب بھی انہی نفسیات میں جی رہا ہوتا ہے۔ جیسے ہم اپنی بات کو سچا سمجھ کر دوسرے تک اپنی بات پہنچانا اپنا سیاسی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح مخاطب بھی یہی فکر رکھتے ہیں۔ جیسے ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بات کو خوب غور و خوض کے ساتھ، خوب توجہ کے ساتھ سنا جائے، بالکل اسی طرح تہذیب اور اخلاق ہمارے لیے بھی یہی دائرہ کھینچتی ہے آپ کو معلوم ہے کہ کوئی بھی شخص اگر آپ سے مختلف رائے رکھتا ہے یا عدم علم کی وجہ سے غلطی پر ہے اور آپ اس کو صحیح بات بتلا دینا اپنا سیاسی و اخلاقی فریضہ سمجھتے ہیں تو اس سوچ میں آپ حق بجانب ہیں ۔ ضرور اپنی رائے کا اظہار کیجئے مگر کس انداز سے؟

کیا انداز یہی ہونا چاہیئے کہ آپ پر جو اختلاف رکھے سیاسی پیچیده معاملات پر سوالات اٹھائے تو آپ انہیں ریاستی ایجنٹ ،غدار ،تحریک دشمن ،پنجابی خواہ قرار دیں، اسے بلوچیت سے خارج کریں؟ کیا قومی تحریک کو وجود دیتے وقت اسی فارمولے کو اپنایا گیا؟ کیا پہلے ادوار میں سیاسی معاملات میں اگر کسی دوست نے اختلاف رکھا تو اس سے اسی طرح سلوک رکھا گیا جو آج رکھا جارہا ہے ؟

یقیناً کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہورہی ہے، یقیناً مقصد بدل چکے ہیں کہ آئے روز سوالات پوچھنے والے اور اختلاف رکھنے والے یا تو ایجنٹ کہلائے جاتے ہیں یا تحریک دشمن، کیا وہ سب ریاستی ایجنٹ ہیں؟ جو اختلاف رکھیں تو پارسا صرف آپ ہوئے جنہیں پیچیدہ معاملات کو سلجھانے کے گُر نہیں آتے؟

ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ تعمیری اختلاف کا حُسن یہ ہے کہ اس کا انجام کسی ایک نقطے پر اتفاق پر ہوتا ہے ناکہ آپ اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی کوشش کریں.اگر اتفاق نہیں بھی ہوتا تو مثبت سوچ کے کئی نئے اُفق سامنے لے کر آئیں ۔ لیکن ہمارے ہاں اول تو تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا خود اختلاف کے حق کو انجوائے کیا جاتا ہے لیکن دوسرے کو یہ حق نہیں دیا جاتا۔ ہمارے ہاں ایک اور طریقہ بھی رائج ہے کہ اگر اختلاف رکھے تو پھر اس کو کسی بھی طرح جائز ناجائز متنازعہ بنایا جائے اس سے وہ مسلط لوگ پھر علاقائی حوالے سے اپنے چاپلوس و چمچوں کو سوشل میڈیا میں اکٹیو کرتے ہیں کہ عام لوگ یہ سمجھیں کہ شاید اختلاف رائے رکھنے والا خود خراب ہے کہ اسے اپنے علاقے کے لوگ برا بھلا کہہ رہے ہیں.

اختلاف رائے اور تنقید کو مسکرا کر ویلکم کرنے سے ہمارے اندر برداشت کے رویوں کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے، اختلافات کے ساتھ دوسروں کو قبول کرنا سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ سب ممکن ہے جب ہم اپنے اپنے خول سے باہر نکلیں گے۔ یہ خول مخصوص نظریات اور شخصیات کا خول ہے جو ہم پر قابض ہو چکا ہے۔ اس کے بعد جو اختلافات اٹھیں گے وہ قومی تحریک کو مثبت راہ پر گامزن کریں گے۔ ورنہ خوامخواہ کے الزامات و غداری و ریاستی ایجنٹ جیسے القابات تخریب کو جنم دیتے رہیں گے جو کسی کے لئے سود مند نہیں.

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔