آو! اختلافِ رائے پر اتفاق کریں – حکیم واڈیلہ

891

آو! اختلافِ رائے پر اتفاق کریں

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

سیف الدین سیف فرماتے ہیں کہ 
سیفؔ انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

گذشتہ روز ایک تحریر بلوچ کلچرل ڈے پر متضاد آراء کے نام سے لکھی، جس میں کچھ ایسے پہلوؤں اور مسائل پر بات کرنے یا روشنی ڈالنے کی کوشش کی جن سے میں ذاتی طور پر متفق ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اگر ان طریقوں سے ہم کام کریں یا کرتے تو شاید بلوچ کلچر ڈے جیسے تقریبات آج بھی بلوچی طریقوں سے منائے جاتے اور بلوچی روایات و ننگ و ناموس بھی سڑکوں بازاروں پر نیلام نہیں ہوتے۔ اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت بھی اسی لیئے پیش آئی کیونکہ ہمارے دوستوں کی جانب سے اس حوالےسے مختلف آراء پیش کی گئیں تھیں۔ جن میں سے کچھ دوست ایسے بھی ہیں، جن سے ہم روزانہ کی بنیادوں پر سیکھتے ہیں اور وہ ہمارے ذہنی نشونما اور تربیت بھی کرتے ہیں، اپنی تحریروں کی صورت میں۔

کل کے تنقیدی کالم کو لکھنے کا مقصد ہی یہی تھا کہ ہم ایک بحث کا آغاز کرسکیں، ایک ایسی بحث جو کہ کسی نتیجے پر سر ہوسکے اور پھر ہم اسی طرح سے ایک روایت شروع کرسکیں۔ جہاں مسائل پر ڈیبیٹ ہوسکے، قائل کرنے یا قائل ہونے کے آداب ہم اپنے آپ میں پیدا کرسکیں۔ کل کے کالم کے جواب میں کہوں تو شاید غلط ہوگا لیکن اسی سے متعلق ایک کالم ہمارے دوست اور سینئر لکھاری لطیف بلوچ نے لکھا ہے، جس میں کافی ایسی باتیں اور نکات موجود ہیں جن پر بلاشبہ مجھ سمیت کوئی بھی باشعور شخص بغیر وقت ضائع کئے متفق ہوگا، جیساکہ پنجابی کلچر کو بلوچ کلچر کے ساتھ ملانا اور بلوچ کلچر کی بے حرمتی کرنے سمیت بلوچ رہنماؤں کو ولن اور اپنے قبضہ گیر ولنز کو ہیرو کی طرح پیش کرنے کی سعی ہو یا پھر ایک دن بلوچ کی حمایت کرکے پورے سال بلوچی پھاگ، شلوار اور داڑھی کی بے عزتی کرنا۔ یقیناً ان تمام باتوں سے کسی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا۔

لیکن سنگت اپنی تحریر میں جس طرح سے ان تمام باتوں کو جواز بناکر اپنی بات ثابت کررہے تھے یا پیش کررہے تھے تو اسی وجہ سے میں پریشان ہوکر دوبارہ اپنی لکھی تحریر پڑھنے لگا اور جب تحریروں کا موازنہ کیا تو ماسوائے چند ایک نکات کے باقی کسی بھی طور پر اپنی باتوں اور سنگت کی دلیلوں میں اختلاف نہیں پایا، البتہ یہاں ایک اہم بات جو سنگت کی تحریر میں کہی گئی ہے وہ یہ کہ اگر تنقید کرنے والا میرے مخالف سوچ کا لکھاری ہے، دوسرا یہ کہ کسی فرد یا جماعت کو طعنہ نہیں دیا جاسکتا کہ وہ ثقافت کو بچانے یا اجاگر کرنے کے لئے کیوں قوم کو شعور دینے یا ایسے ریاستی تقریبات سے روکنے کیلئے حکمت عملی طے نہیں کرتے۔ جس کا جواب بھی کافی عمدہ طریقے سے کالم میں ہی دیا گیا ہے۔

یہاں کچھ باتیں ایسی ہیں، جنہیں شاید تضاد بیانی کہا جاسکے یا پھر یوں کہیں کہ وہ باتیں جو لکھتے وقت جذباتی کیفیت میں کوئی بھی لکھاری کہہ جاتا ہے۔ کم از کم میں ذاتی حوالے سے جن دوستوں کی تحریروں کے جواب میں اپنی تحریر لکھ رہا تھا جس میں یقیناً سنگت لطیف بلوچ بھی شامل ہیں، انہیں علمی حوالے سے اپنا اُستاد مان کر انکی تحریروں سے سیکھ کر ہی تنقید کرنے کی صلاحیت اپنے آپ میں دیکھ رہا ہوں، تو انہیں مخالف سوچ کا نہیں کہہ سکتا البتہ ایک موضوع پر ہمارے خیالات کا مختلف ہونا فطری عمل ہے۔ جو کہ ایک بہتر اور مثبت عمل بھی ہے۔ رہی بات کسی تنظیم، جماعت یا گروہ کو طعنہ دینے کی تو ہمیں ہمیشہ اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ طعنہ دینے اور دوستوں کو پیغام دینے یا اپنے سوچ کے مطابق انہیں ایک مسئلے پر سو چنے اور اسے پرکھنے کا کہنے کے عمل کو طعنہ نہیں کہہ سکتے، صلاح ضرور کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم طعنہ ہی تصور کرکے چلیں تو طعنہ صرف ایک لکھاری یا ایک تنظیم کیلئے نہیں تھا، بلکہ مجموعی طور جتنے بھی حقیقی لکھاری اور پارٹیاں موجود ہیں ان سب کیلئے تھا۔ جس میں راقم جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں وہ بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

حرف آخر میں صرف اتنا کہنا چاہونگا ہم اگر یہ سمجھتے ہیں اور واقعتاً مانتے ہیں کہ ریاست نے ہمارے لیئے سیاست کرنے کے تمام دروازے بند کردیئے ہیں، تو کیا ہم نے سماجی حوالے سے، علمی حوالے سے، فن کے حوالے سے، ادبی حوالے سے یا ثقافتی اور کتب میلوں کے حوالوں سے کسی اور دروازے کا انتخاب کیا ہے اور اگر نہیں کیا تو کیوں نہیں کیا؟ ان تمام سوالوں کا جواب ڈھونڈنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری بنتی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔