آواز اٹھاؤ، اس سے پہلے کہ خود بے گواہ ہو جاؤ!
تحریر: گندار زہری
دی بلوچستان پوسٹ
پورے بلوچستان میں مسنگ پرسنز کا مسئلہ ایک پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اغواء ہونے والے نوجوانوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے بھوک ہڑتالی کیمپ میں شرکت کررہے ہیں، سوشل میڈیا کے ذریعے مختلف کیمپین چلائے گئے اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے دو دو تین تین مہینے تک سخت سردی میں مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آئے۔ کچھ متاثرہ خاندان کی جدوجہد رنگ لائی اور ان کے اغواء کیئے گئے افراد کو بازیاب بھی کیا گیا۔
لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے لاپتہ مستی خان زہری اور عابد خان کے اغواء کے خلاف کسی نے زبان تک نہ کھولا، نہ ہی ان اغواء ہونے والے نوجوانوں کے نام مسنگ پرسنز لسٹ میں درج کروایا اور نہ ہی ان کی بازیابی کے لیئے کوئی قدم اٹھایا گیا- وہ آج بھی لاوارث، ریاست یا کسی جاگیردار کے عقوبت خانوں میں اذیتیں سہہ رہی ہیں، نہ ان کا کوئی پرسان حال ہے نہ کہ زہری کے لوگ اس مسئلے کو کوئی مسئلہ سمجھتے ہیں- کیونکہ یہ دو نوجوان سرکار کے تلوے چاٹ نعمت اللہ زرکزئی اور بدنام زمانہ ریاستی اعلیٰ کار ثناءاللہ زرکزئی کے گھر انجیرہ سے نزدیک اغواء ہوگئے تھے- ظاہر ہے اب زبانوں پہ تالے لگے ہوئے ہیں کہ اگر کسی نے آواز اٹھائی تو یہ غنڈے ہمیں بھی عابد و مستی خان کی طرح بے گواہ کردینگے۔
مذکورہ نوجوانوں کے اغواء ہونے کے اگلے دن سنگر نیوز پر یہ خبر پڑھنے کو ملی لیکن رات کو اس خبر سے اغواء ہونے والے افراد کے خاندان نے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے اگلے دن خضدار پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اِن کے والدین نے ثناءاللہ زرکزئی اور نعمت اللہ زرکزئی سے رحم کی بھیک مانگی کہ ہمارے پیاروں کی بازیابی کے لیئے ہماری مدد کریں، بھلا بھیڑیا کیا جانے کسی انسان کی تکلیف کو۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم کسی نیوز میڈیا پر نشر ہونے والے محض ایک خبر سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں تاکہ ہمارے مسئلے کو کسی اور صَف میں شامل نہ کیا جائے اور ہمیں نوابوں سے کوئی مدد حاصل ہو، جوکہ صرف اور صرف خام خیالی ہے-
لیکن علاقہ مکین یہ نہ سمجھیں کہ آج دو گھر اجڑ گئے ہیں تو کل ہم بچ جائیں گے؟ بالکل نہیں کل تمھارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آ سکتا ہے اور اُس وقت سوائے گڑگڑا کر سسک سسک کر رونے کے سوا تمھارے پاس اور کچھ نہیں ہوگا اور اپنے پیاروں کی اذیتیں جب دل کو چیر دینگی تو دل و جگر پھٹ جائے گا اور اپنے گھر کے کونے میں تڑپ تڑپ کر مر جاؤ گے۔
جس طرح اکبر قمبرانی تاحال لاپتہ ہے، ظہور احمد ہرند کو قتل کرکے روڈ کے کنارے لاوارث پھینکا گیا، تو ہمارے بے حس معاشرے کے کسی بھی فرد نے ان بدکردار لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں کی اور نہ ہی ان کے خلاف زبان کھولی- اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عابد و مستی خان بےگواہ ہوگئے، اگر اس وقت ہم زندہ ضمیر ہونے کا ثبوت دیتے تو شاید آج یہ دن دیکھنے کو نہیں ملتا۔
اس مسئلے کو عالمی، علاقائی اور قومی سطح پر اجاگر کرکے مذکورہ نوجوانوں کی بازیابی کے لیے اقدامات اٹھائیں اور اپنے ضمیر، عزت، غیرت اور حیا کے زندہ ہونے کا ثبوت دیں۔
لہٰذا اب بھی وقت ہے عابد و مستی خان کے علاوہ زہری سے اغواء کیے گئے دیگر تمام نوجوانوں کی بازیابی کے لیے آواز اٹھاؤ ورنہ ظہور احمد ہرند کی طرح کَل صرف روڈوں پہ لاشیں پاؤ گے۔
آواز اٹھاؤ اس سے پہلے کہ خود بے گواہ ہو جاؤ!
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔