کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاج کو 3506 دن مکمل

110

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3506دن مکمل ہوگئے۔ سول سوسائٹی اور وکلاء کے وفود نے لواحقین سے اظہار یکجہتی کرنے کیلئے کیمپ کا دورہ کیا۔

اس موقعے ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج دنیا جس تیزی سے بدل رہی ہے شاید اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی، ہر دن کی نوعیت گزرے دن سے مختلف ہوتا جارہا ہے، ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک بستی بنادی ہے جہاں ایک گھر میں لگی آگ تمام گھروں کو اپنے لپیٹ میں لیتی ہے اس تیزی سے بدلتی دنیا میں سیاست اور سفارت بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔ عالمی سیاست کے بارے میں ایک مشہور مقولہ ہے کہ یہاں کوئی کسی کا نہ مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دوست، سیاست میں موافق حالات کی تلاش کرکے اپنے اجتماعی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس تیزی سے بدلتی دنیا میں ایک پل بھی سیاسی منظر نامے سے ہٹنا گھاٹے میں رہنا ہے۔کیا ہم بلوچ من حیث القوم ادراک رکھتے ہیں کہ ہمارے رہبران اور سیاسی اداروں کی نظر ان بدلتی ہوئی حالات پر ہے۔ کیا ہم وہ قابلیت رکھتے ہیں کہ اس خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کو پرکھ کر اپنے مفادات کا حصول ممکن بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اگر ہم ان منکرین تحریک و منافقین وطن کے باتوں کو مان کر چھپ کر جائے کہ بلوچ نوجوانوں کو ان حالات میں صرف تعلیم حاصل کرنا چاہیئے تو میرا سوال یہ ہے کہ اس تعلیمی نظام سے گزر کر جب وہ تیار ہونگے تو کیا برائے نام ڈاکٹر، انجینئر، بیوروکریٹ بن کر کیا وہ انسانی حوالے سے ایسے باشعور افراد ہونگے اپنے قوم کے حوالے سے فرائض سے آگاہ ہونگے اور وہ کس نظام کر بڑھاوا دینے کی جستجو کرینگے، بلوچ قومی یا استحصالی ادارہ جاتی نظام کو؟ اس سے پہلے جو انجینئر، ڈاکٹر، وکیل، بیوروکریٹ، اسٹینو یا کلرک بنے کیا ان کیقومی تبدیلی یا انقلاب کی بابت کام کی کوئی نشاندہی کرسکتا ہے۔کرپٹ، خودغرض اور قومی تقاضوں سے بیگانگی کی میں نشاندہی کرتا ہوں۔ اس تمام عرصے کے دوران بلوچ سرزمین پر بسنے والے گندے جوہڑوں کا پانی پیتے ہوئے بچپن سے لیکر جوانی تک کی عمر میں یرقان سے ہلاک ہونیوالے نوجوانوں کی ہلاکت کا ذمہ دار کون ہے۔کوئٹہ کے ارد گرد کے علاقوں میں بسنے والی ان ماں، بہنوں کے جو دوران زچگی ہلاک ہوتے ہیں ان کی ہلاکت کا ذمہ دار کون ہے ۔ دور دراز علاقوں کے پالیسی سازوں نے جان بوجھ کر ایسے معاشی پالیسیوں کے پھانسی گھاٹ میں عوام کو اتارا ہے جو اپنی موت آپ مررہے ہیں۔

ماما قدیر نے کہا کہ اس تعلیم کا کیا فائدہ جو صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کیلئے حاصل کی جائے ۔ وہ کرپٹ ایم پی اے، ایم این اے عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتا ہے جو لوگوں کے پاس انتخابات کے وقت تعزیت کیلئے پہنچ جاتا ہے اور اس کے بدلے ووٹ حاصل کرتا ہے۔آج لوگ چوبیس گھنٹے محنت کے باوجود اپنے بچوں کو بہتر خوراک، صحت اور تعلیم نہیں دے پارہے ہیں۔سڑکوں پر بچوں کو لٹا کر بھیک مانگا جارہا ہے لیکن کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہے۔

دریں اثنا کیمپ میں موجود تین سال سے لاپتہ شاہنواز کے بیوی اور والدہ نے ان کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ شاہنواز کے گمشدگی کے باعث خاندان کے تمام افراد کُرب کی زندگی گزار رہے ہیں، تین سال سے ہم ان کو تلاش کررہے ہیں لیکن ان کے حوالے سے ہمیں کوئی معلومات نہیں مل رہی ہے۔

واضح رہے شاہنواز ایک اسکول وین ڈرائیور تھا جنہیں 3 سال قبل کوئٹہ کے علاقے فیض آباد سے سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں نے گرفتاری کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا جو تاحال لاپتہ ہے۔