پنجاب کی یونیورسٹیوں میں بلوچ طلباء سے امتیازی سلوک
نوروز لاشاری
دی بلوچستان پوسٹ
قابض پنجاب کا سوچ، رویہ یا کردار ہی وہ چیزیں ہیں، جو بلوچ قوم کا دشمن ہے۔ چند روز پہلے میں پنجاب کے ایک تعلیمی ادارے کے طالب علم سے ملا جو وہاں تعلیم حاصل کررہا ہے، اس سے ملنے کے بعد میں اب تک سوچوں میں گم ہوں اور گھوم پھر کر ایک بات پر پہنچتا ہوں کہ بلوچ قوم کا مقابلہ پنجابی فوج سے نہیں بلکہ پنجابی سوچ، رویئے یا کردار سے ہے۔
جن واقعات کا دوست نے ذکر کیا ان میں سے چند کا میں ذکر کرنا چاہوں گا، وہ بتاتا ہے کہ ایک بار موٹر سائیکل پر میں دوست کی تیمارداری کےلیے ہسپتال جارہا تھا کہ راستے میں پولیس نے روک لیا اور پہلا جملہ کسا “یہ شلوار کاٹ کر چھوٹی کیوں نہیں کر لیتے گرنے کا سبب نہیں بنتی ؟ جاؤ صاحب کو نا کاٹنے کی وجہ بتا کر معافی مانگو”
ایک اور بار کلاس میں پریزینٹیشن کے موقع پر پنجابی ٹیچر سوال کرتا ہے “تمہارے بلوچ ہمارے پنجابیوں کو کیوں مارتے ہیں” دوست نے بتایا کہ یہ پریزینٹیشن کسی بھی طرح سے سوال سے تعلق نہیں رکھتی تھی۔
اس طرح ایک بار کاغذات کے کام کےلیے دفتر جانا ہوا، کلرک نے سوال پوچھا کہاں سے تعلق رکھتے ہو میرے بتانے پر کہا گیا “قرآن آتا ہے؟ کلمہ سناؤ نہیں تو کام نہیں کرونگا”
ایک اور دفعہ ٹیچر بھری کلاس میں کہتا ہے میں فلاں فلاں لڑکوں کو فیل کرونگا، ان سب ناموں میں سے پنجاب کے علاوہ سب علاقوں کے طالب علموں کے نام تھے بعد میں اس نے فیل کیئے یہ ٹیچر پہلے بھی کئی بار بلوچ اسٹوڈنٹس کو پوائنٹ آؤٹ کر چکا تھا۔
یہ سب واقعات سن کر میں اس سوچ میں گم ہوں کہ جو بلوچ سیاستدان کہتے ہیں کہ فوج بلوچستان سے نکل جائے مسائل کا حل اسی میں ہے کیا یہ سارا رویہ، سوچ کردار بدل جائے گا؟ جو بلوچ طالب علم پنجاب کے اداروں میں ٹیچرز، پولیس، کلرکس کی جانب سے سب دیکھ رہے ہیں۔ یقیناً بلوچ رہنماؤں کو ان تمام طالبعلموں کی شعوری علمی اور سماجی تربیت کرکے انہیں یہ سمجھانا ہوگا کہ کس طرح قابض قوم مظلوم عوام پر دوران انقلاب ظلم و جبر کرتے ہیں۔ مگر جب مقبوضہ اقوام اپنی آزادی، اپنا عزت اور وقار واپس چھین لیتے ہیں تو یہی قابض قوتیں محکوم اقوام کے سامنے سجدہ ریز ہوکر معافیاں مانگتے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔