پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمودخان اچکزئی نے کہا ہے کہ جب تک افغانستان اور ہندوستان کے ساتھ پرامن اور بقائے باہمی کی بنیاد پر تعلقات استوار نہیں کئے جاتے کوئی کوریڈور نہیں بن سکتا پاکستان کو قائم رکھنے کے لئے انصاف کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے لورالائی میں ارمان لونی کا پرتشدد قتل بزدلانہ اقدام ہے ۔
پشتونخواملی عوامی پارٹی اس اقدام کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اگر ریاست نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی تو اس طرح حالات ٹھیک نہیں ہونگے اور اس کے خطرناک نتائج برآمد ہونگے ہمیں بنگال سے سبق سیکھنا ہوگا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پشتون نوجوانوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے جس کے مستقبل میں بھیانک نتائج برآمد ہونگے ان خیالات کا اظہار انہوں نے بات چیت کرتے ہوئے کیا ۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پشتون علاقوں میں جس طرح منظم سازش کے تحت حالات کو خراب کیا جارہا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مزید مسائل پیدا کریں گے پشین ‘ لورالائی ‘ قلعہ سیف اللہ اور چمن میں منظم سازش کے تحت حالات کو خراب کرکے یہاں مزید حالات کو گھمبیر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
پاکستان کے چاروں طرف ایک خطرناک جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں کوئی بھی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اس نئی جنگ میں پاکستان محفوظ رہے گا اگر ملک کے حکمران اس ملک کو چلانا چاہتے ہیں تو یہاں پر تمام قوموں کو حق کی بات کرنے کی آزادی دینا چاہئے خسور واقعے کے بعد لورالائی میں مسلسل واقعات ایک سوالیہ نشان ہیں انہوں نے کہا کہ پشتونخواملی عوامی پارٹی کسی بھی غیرجمہوری عمل کی حمایت نہیں کرے گی اور اس وقت پشتونوں کے ساتھ جو کھیل کھیلا جارہا ہے ۔
یہ ملک کے مستقبل کے لئے نیک شگون نہیں ہے پشاور اور وزیرستان کے بعد یہاں پر چن چن کر پشتون نوجواں کو نشانہ بنایا جارہا ہے حکمران ہوش کے ناخن لیں اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے حقائق کو سامنے لایا جائے جب تک ملک میں سچ پر مبنی حقائق سامنے نہیں آئیں گے اس وقت تک ملک نہیں چلایا جاسکتا ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کی نظریں ہمارے اوپر ہیں کہ اس ملک میں جو بھی صورتحال وہ ہمارے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ پشتونوں نے کبھی بھی دہشت گردی کو سپورٹ نہیں کیا اور نہ ہی ہمارا تعلق ہونے والے واقعات سے ہے کیونکہ پشتونوں نے ہمیشہ عدم تشدد کے فلسفہ پر عمل کیا ہے دہشت گردی جانی مسئلہ ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر خطے میں امن بحال کرنا ہے تو خطے میں ہمسایہ ممالک چین ‘ ایران اور افغانستان کی سیاسی قیادت کو یہ سوچنا ہوگا کہ اب ان حالات سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی کو سپورٹ نہیں کریں گے کیونکہ جب تک ہم یہ اقدام نہیں اٹھائیں گے اس وقت تک کوئی بھی ملک دہشت گردی کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کرسکتا ۔