ماہرنگ بلوچ کیلئے چراغ کی اہمیت
چیدگ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
چراگ کیا ہے؟ اور اس کی اہمیت کیا ہے کہ اس اس کیلئے8 سالہ ماہرنگ بلوچ اپنے والدہ اور اپنے چهوٹے بهائی سنجرکے ساتھ دن رات کبهی فٹ پاتھ تو کبهی سڑکوں اور کبهی پولیس اسٹیشنوں پر تو کبهی پریس کلبوں کے سامنے چراگ کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔ سرد و گرم، برفباری، بهوک و پیاس، دن و رات سب کی پروا کیئے بغیر چراگ کی تلاش میں ہیں۔
جی ہاں! چراگ اللّہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک ہے، جو اندهیری رات کو ایک نئے صبح میں بدل دیتا ہے، جو ایک نوجوان کو مجبور کرتا ہے کہ وه پڑهائی پر توجہ دے، پورے دن کی انتظار کے بعد آخر میں اندهیری رات آن پہنچتا ہے، اور پهر اس اندهیری رات کو چراگ پهر سےدوبارہ ایک نئی صبح میں بدل دیتا ہے، تاکہ کوئی بهی نوجوان رات کے اندهیرے میں چوری، منشیات، ڈکیتی، لوٹ مار جیسے بُرائیوں سے بچ سکے اور پڑھائی پر توجہ دے سکے۔
جی بلکُل یہ تو سمجه آگیا! مگر یہ سمجهنے سے قاصر ہوں کہ 8 سالہ ماہرنگ بلوچ اور4 سالہ سنجر کو آخر کیوں اس کی کمی اتنی شددت سےمحسوس ہو رہا ہے جبکہ ان کو اس عمر میں کهلونے کے ساته دن کی روشنائی میں کهیل کر رات کے اندهیرے میں سونا چاہیئے تها؟ یه کیوں اندهیرےسے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ وه اس عمر میں چراگ کی تلاش میں سڑکوں پر نکل پڑے ہیں؟ جی یہ وه چراغ کا کمال ہے، جس نے چار سالہ سنجر کو ایک کامریڈ سنجر کی شکل میں پوری دنیا کے سامنے ایک پیغام کے طورپر پیش کیا کہ چراغوں کو ڈهونڈنے کیلئے کوئی عمر کے لحاظ کی ضرورت نہیں ہوتا بلکہ پکا ارادے اور پختہ یقین ہی کافی ہوتا ہے۔ اگر4 سالہ سنجر اور آٹھ سالہ ماہرنگ کو اتنا سکها سکتا ہے کہ آپ کو چراگوں کی تلاش میں کہاں جانا ہے اور مجھ جیسے نالائق نوجوان کو یہ بهی سکها سکتا ہے کہ آپکو چراگ بنیے کیلے کہاں جانا پڑتا ہے۔
پهر یہ سوچنا چاہیئے کہ اُس نےاپنے عمر میں کتنے نوجوان تعلیمی میدان کی طرف راغب کیئے ہیں، کل کو ہر ایک نوجوان چراگ بن کر پوری دهرتی بلوچستان کے اندهیرے کو نئی صبح میں تبدیل کر سکتا ہے۔ آج اس ریاست کو یہ گوراہ نہ ہوا کہ چراگ کی روشنی سے بلوچ نوجواں کچه سیکه سکیں اور اپنے وطن و زبان، دود و ربیدگ، مہمان نوازی، بهائی چارگی کو آگے رکھ کر آگے بڑھیں، بلوچستان کا نام روشن کریں اور بلوچستان کو دنیا کیلئےامن کا گہورا بنائیں اور ریاست اس سے خوفزدہ ہو کر چراگ کو جیل میں ڈال دیا اور وہاں اس پر ہر طرح کے ٹارچر کررہا ہے۔
ریاست کے اس بہیمانہ رویئے کی وجہ سےآج ہزاروں ماہرنگ اسکول کے بجائے پریس کلبوں میں بیٹھے ہیں، ہزاروں نوجوان اسکولوں سےفارغ ہوکر، ہزاروں ماہرنگ اور سنجروں کے آنسوؤں اورفریادوں سے دلبرداشتہ ہوکر پہاڑوں کو اپنا مُسکن بنائے ہوئے ہیں اور یہ بات بهی یاد رکهنا کہ کل کو یہ آنسو سیلاب بن کر شہروں میں آپکو جینے نہ دینگے اور پہاڑوں میں نوجوان پہلے سے مورچہ زن ہیں، پهر تمہارا حال بنگلہ دیش سے بدتر ہوگا۔
چراگ مجهے آج بهی آپ پر فخر ہے کہ آپ سلاخوں میں ہزاروں نوجوانوں کا حوصلہ ہو، وہاں آپکا شددت سے ضرورت ہوگا، وہاں بھی آپ اپنا فرض پورا کر رہے ہوگے، جہاں آپ کے علاوہ اُن نوجوانوں کا کوئی سہارا نہیں ہے، کال کوٹھڑیوں میں دن رات کا کوئی فرق نہیں ہوتا ہے، چراگ تجهےسلام ہے کہ آپ نے کامریڈ سنجر کو اس عمر میں کیا کیا نہیں سکهایا، باقی بچے اس عمر میں اپنےزبان میں بات کرنا نہیں سیکه لیتے ہیں، آج بهی کامریڈ سنجر کے کچه الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں اور مجهے اپنے اوپر شرم محسوس ہورہا ہے کہ میں کس ریاست سے اُمید لگا کر بیهٹاہوں، جس میں چارسالہ کامریڈ سنجر پریس کلبوں میں کہتا ہے
حق دو حق دو جینے کا حق دو
بازیاب کرو بازیاب کرو تمام لاپتہ مظلوموں کو بازیاب کرو
ہم ظلم مٹانے نکلےہیں آؤ ہمارے ساته چلو
چراگ بلوچ کو بازیاب کرو
We Wants Justice
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔