مادری زبان
شہزاد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں بہت سے دن کسی مخصوص مناسبت سے منائے جاتے ہیں، جیسے کہ ماں کا دن (Mother’s day) باپ کا دن( Father’s day) استاد کا دن (Teacher’s day) اور بہت سے اقوام جنہوں نے طویل عرصے کے جدوجہد بعد قابض قوتوں سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کی اور اس جدوجہد میں بہت سے قربانیاں دیں، وہ تمام اقوام اپنے آزادی کے حوالے سے ایک دن مناتے ہیں۔
اسی طرح بین الاقوامی سطح پر ایک دن ایسا منایا جاتا ہے جسے مادری زبانوں کا نام دیا گیا ہے۔ یہ دن ہر سال 21 فروری کے روز آتا ہے، ہر قوم جو دنیا میں آباد ہے، وہ اپنی مادری زبان کے دن کو ایک خاص جذبے کے ساتھ مناتے ہیں، ایک قوم کے دانشور و ادیب طبقات اپنے مادری زبان کے فروغ کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
کسی بھی قوم کی شناخت ان کے تہذیب و ثقافت، ان کی زبان سے ہی ہوتا ہے۔ اس دنیا میں جن اقوام نے اپنی ثقافت اپنی تہذیب اپنی زبان کی حفاظت میں تھوڑی سی بھی کوتاہی کی، وہ اقوام آج صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ اپنے مادری زبان کو کمتر اور اپنے اوپر غالب نوآبادکار کی تہذیب و ثقافت اور اس کے زبان کو برتر خیال کرنا ہی اس قوم کے بربادی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بلوچستان و بلوچ قوم کا داستان بہت قدیم ہے، جسکا مجھے خود اتنا علم نہیں۔ بلوچ قوم جو کہ پوری دنیا میں دوسرے بڑے اقوام کی طرح اپنی ایک پہچان رکھنے کے ساتھ ساتھ جغرافیائی حوالے سے بھی دنیا کے نقشے پر ایک پہچان رکھتا ہے۔ جسکی سرحد افغانستان و ایران سے ملتے ہیں اور ساحل بحر عرب سے ملے ہوئے ہیں۔
بلوچ قوم کے دو قومی زبانیں، بلوچی و براہوئ ہزاروں سالوں سے آج تک اپنی اپنی اصل شکل میں موجود ہیں اور انکی موجودگی کے پیچھے اس قوم کے عظیم جانبازوں کی قربانیاں ہیں، جنہوں نے اپنے گرم لہو سے اپنی سرزمین و اپنے دونوں زبانوں کو شاد و آباد رکھا ہے۔
اج بلوچ قوم بدترین حالات سے گذر رہا ہے۔ جس طرح پاکستان نے 1952 میں بنگالیوں کو اپنے مادری زبان کا دن منانے و بنگالی زبان کو سرکاری قرار دینے کے بجائے ان کو تشدّد کا نشانہ بنایا اور ان کی تہذیب وثقافت کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اسی طرح پہلے برٹش، افغانستان، ایران اور پھر پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کرکے بلوچ قوم کو اپنا غلام بنایا۔
آج سے 71 سال قبل جب پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کیا، تو بلوچستان سے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کے ساتھ وہ بلوچ قوم کی تاریخ ، ادب، تہذیب وثقافت ، زبان پر بھی اپنا قبضہ جمانے کی کوشش میں تھا۔ اور کافی حد تک وہ اپنے اس عزم کو پورا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ آج ہم بلوچ قوم اپنی تاریخ، اپنے ادب اور سب سے بڑھ کر قومی احساس کمتری جیسے مرض میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔
بات ماردی زبان کی ہو رہی تھی، ہماری دو زبانیں تقریباً نو ہزار سال سے لیکر آج دن تک بہت سے ظلم و جبر سے گذر چکے ہیں۔ آج بھی ہمارے دشمن عناصر انکو مسخ کرنے کے ناجائز عمل میں لگے ہوئے ہیں۔ آج ہمیں براہوئی، بلوچی زبانوں سے ایک دوسرے سے علحیدہ کرنے کی گھٹیا کوششوں ميں لگے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں اس کام کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں۔ یہ افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ براہوئی ایک قوم ہے۔ ہم بلوچ قوم اس بات کی مذمت کرتے ہیں اور ہمیں ہماری دونوں زبانوں پر فخر ہیں تا قیامت اپنی زبانوں کی حفاظت کرینگے جیسے ہمارے باپ دادا کرتے آرہے تھے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔