قومی وحدتوں کے استحکام کیلئے نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے – اسلم رئیسانی

178

پڑوسی ممالک انسان ہے کوئی غیر مخلوق نہیں افغانستان ایران چین بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوں تو بہتر ہے – نواب اسلم رئیسانی

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان و چیف آف ساراوان نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت میں جو کمزوریاں ہے اور ہر دن ان کے درمیان اختلافات جنم لیتے ہیں دراصل غیر فطری اتحاد اور غیر فطری جماعتوں کے قیام کی بدولت ہے ہماری حکومت نے عوام کے لئے اجتماعی منصوبہ بندی کی اگر ہم پر کوئی الزام ہے تو نیب فوج اور عمران خان تحقیقات کرائے میں جوابدہ ہوں بلوچستان سمیت قومی وحدتوں کے استحکام کے لئے نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے 18ترامیم حرف آخر نہیں ان خیالات کا اظہار انہوں نے ساراوان ہاؤس سبی میں میڈیا نمائندگاں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان و چیف آف ساراوان نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا کہ نیشنل ایوارڈ کو بھی 11سال ہوچکے ہیں سابق دور حکومت میں این ایف سی ایوارڈ منظور ہواتھا اس کے بعد کوئی این ایف سی ایورڈ نہ آسکا اب ہمیں دیکھنا ہے کہ وفاقی حکومت 73کے آئین کی پاسداری کرتی ہے یا نہیں اور18ویں ترامیم بھی 73کے آئین کا حصہ ہے اور گذشتہ ادوار میں فیصلہ ہوا تھا کہ این ایف سی ایوارڈ میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا ۔

موجودہ اسمبلی میں 18ویں ترامیم کے خاتمہ کے حوالے سے بات چیت ہونے پر انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت کی کاوشوں کی بدولت 18ویں ترامیم منظور ہوئی احساس محرومی پہلے موجود تھا سابق ادوار میں بلوچ پشتوں سندھی احساس محرومی کا شکار تھا مگر نواز شریف میاں شہباز شریف کے خلاف الزامات پر اب پنجابی بھی احساس محرومی کاشکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ 73کا آئین حرف آخر نہیں اور نہ ہی 18ویں ترامیم جو 73کے آئین کا حصہ ہے وہ بھی حرف آخر نہیں میں سمجھتا ہوں کہ قومی وحدتوں کے درمیاں ایک نئے عمرانی معاہدہ طے پانے کی ضرورت ہے قومی وحدتوں کی عوام کا احساس محرومیوں کو ختم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ فائدہ دیاجائے۔ انہوں نے کہا کہ نواب احمد یار خان کے ساتھ جو معاہدہ محمد علی جناح نے کیا وہ آج بھی اسی وزن اور حیثیت سے موجود ہے وفاق کے پاس کرنسی کرنٹ افئیر اور دفاع ہو اور باقی تمام اختیارات صوبوں کے پاس ہو ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کا وفاق مضبوط اور بحال رہے پاکستان کے قومی وحدتوں کو زیادہ فائدے اور اختیار دے ، میں تمام سیاسی پارٹیوں کو کہتا ہوں کہ وہ اس پر غور کریں آج پاکستان کا استحکام نئے عمرانی معاہدہ پر ہے سندھی پنجابی بلوچ پشتوں سمیت تمام اکائیوں پر مکمل اختیار ات دیں تو لوگ اسلام آباد کی بجائے ہمارے جانب دیکھیں گے اب وقت آچکا ہے کہ ہم اس پر جدوجہد کریں ۔

نواب محمد اسلم رئیسانی کی سابق حکومت پر این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے الزامات پر انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت میں کوئی بندر باٹ نہیں ہوا بلکہ ہم نے عوام کی خدمت اور عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی بلوچستان گولڈ پروجیکٹ بنانا کر وفاق میں رجسٹرڈ کیا پاور ہاؤسز میگا پروجیکٹ بناکر عوام کو ریلیف دیا اگر کسی کو ہمارے منصوبوں پر اور ہم پر الزام لگانے کا شوق ہے تو میں کھلے عام چیلنج کرتا ہوں کہ نیب فوج عمران خان تحقیقات کرے میں مکمل جواب دہ ہوں۔ بھارت کی جانب سے حملے اور تعلقات کے خراب ہونے پر نواب محمد اسلم رئیسانی نے کہا کہ پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنے ہونگے کیونکہ جب تک پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات قائم نہیں ہونگے پروسی ممالک کی عوام خوش نہیں ہوسکتی اور اگر پڑوسی ممالک خوش نہیں ہونگے تو ٹماٹر آٹا لہسن بھی ہمیں نہ ملے گا ہمارے پڑوسی ممالک انسان ہے کوئی غیر مخلوق نہیں افغانستان ایران چین بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوں تو بہتر ہے۔

سابق اور موجودہ حکومت میں فرق کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت جام کمال خان کی ہے اور سابق حکومت نواب محمد اسلم رئیسانی کی تھی انسانی فطرت میں طلب کا عنصر ہے جو قیامت تک ختم نہیں ہوسکا ہم سب اللہ کے بندے ہیں ہمارے سب کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے خوب سے خوب تر تلاش میں رہتے ہمارا مقصد عوام کی خدمت ہے کسی کی حکومت کو گرانے یا بچانے کی نہیں آج ہم پر بلوچ حکمرانی نہیں کررہا بلکہ جام صاحب کررہے ہے جام کمال خان کی جبکہ ہمارے پاس ہے یعنی ساراوان ہاؤس کوئٹہ سبی مٹھڑی کانک میں ہے۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی قائدین پر الزامات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ الزامات کا سلسلہ تو قیام پاکستان سے چلا آرہا ہے بی این پی اور ہمارے درمیاں اتحاد ہے جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں کسی سیاسی جماعت میں جانے کا اب سوچ نہیں سکتا مگر میری کوشش ہے کہ بلوچ بھائیوں کو ایک جگہ متحد منظم کروں کوئی سیاسی جماعت بنانے کا ادارہ نہیں مگر جو روز زبردستی ہمارے وسائل پر قبضہ اور بلوچستان کو فروخت کر نے کی سازش ہوتی ہیں اس کے خلاف متحد ومنظم ہوکر اپنے استحکام اور وجود کو قیام کرنے کے لئے فطری اتحاد قائم ہوتو ہمارے کئی مسئلہ مسائل کا تدارک ممکن ہوسکتا ہے۔