فیس بک ایک ڈیجیٹل گینگسٹر کی طرح کام کرنے کے ساتھ ساتھ سوشل نیٹ ورکس پر اپنے غلبے کا غلط استعمال کررہا ہے اور خود کو قانون سے بالاتر’ سمجھتا ہے۔
یہ بات برطانوی پارلیمان کی ڈیجیٹل، کلچر، میڈیا اور اسپورٹ کمیٹی کی ڈیڑھ سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد شائع رپورٹ میں سامنے آئی۔
برطانوی اراکین پارلیمان نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ فیس بک دانستہ طور پر پرائیویسی اور مسابقتی قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہے اور اسے نئے قوانین کے تحت لایا جانا چاہئے۔
رپورٹ میں فیس بک کے چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ پر برطانوی پارلیمنٹ کی توہین کا الزام عائد کیا گیا، جنہوں نے 3 بار برطانوی پارلیمنٹ میں طلبی پر شرکت سے انکار کیا۔
اس رپورٹ میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر جعلی خبروں اور غلط معلومات کے پھیلاﺅ کے حوالے سے تحقیقات کی گئی جس کے دوران 73 گواہوں کو سنا گیا جبکہ 170 تحریری جوابات ملے۔
کمیٹی نے کیمبرج اینالیٹکا اسکینڈل میں فیس بک کے کردار کا تجزیہ کرنے کے ساتھ پرائیویسی امور کے حوالے سے اس کے اقدامات کو دیکھا۔
رپورٹ میں کہا گیا جمہوریت کو غلط معلومات کے پھیلاﺅ اور تاریک اشتہارات کے ذریعے شہریوں کو ہدف بنانے سے خطرات کا سامنا ہے، ہم جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز روزانہ استعمال کرتے ہیں، ان میں سے بیشتر روس سمیت دیگر ممالک کی ایجنسیوں کی ہدایات پر کام کرتے ہیں’۔
رپورٹ کے مطابق بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں خطرناک مواد کے خلاف اقدامات کے حوالے سے اپنا فرض نبھانے میں ناکام ہورہی ہیں جبکہ وہ پرائیویسی حقوق کا دفاع بھی نہیں کرسکیں۔
کمیٹی نے دفاع کیا کہ فیس بک دانستہ طور پر ایسے کام کرتی ہے اور ایسے عہدیداران کو سامنے لاتی ہے جو انتخابی مداخلت جیسے شعبوں کے حوالے سے ناقص بریفننگ دیتے ہیں۔
رپورٹ میں برطانوی حکام کو سخت اقدامات کی تجاویز دی گئیں جن کے تحت ایسے سخت قوانین کا اطلاق ٹیکنالوجی کمپنیوں پر کیا جائے جو انہیں غیرقانونی مواد اپنی سائٹ سے خارج کرنے پر مجبور کرے۔
اخلاقی ضوابط کے تحت خطرناک مواد کی تعریف کی جائے۔
ایک آزاد اور خودمختار ریگولیٹر اتھارٹی اس ضابطہ اخلاق کا نفاذ کرے۔
آن لائن سیاسی اشتہارات کے لیے نئے قوانین نافژ کیے جائیں۔
دوسری جانب فیس بک کے پبلک پالیسی منیجر نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کمپنی کمیٹی کے تحفظات سے آگاہ ہے اور اپنے میکنزم کو بہتر بنانے کے لیے کام کررہی ہے۔