فرشتہ
(شہید وحید بلوچ کو خراج عقیدت)
تحریر: نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
فرشتہ نام سنتے ہی مذہبی عقائد کے مطابق ایک ایسی ہستی کے اوصاف دماغ میں نمودار ہونا شروع ہوجاتی ہیں، جو ہر عیب و کمی سے پاک ہوتے ہیں۔ الغرض ایک ایسی مخلوق جو صرف اور صرف اچھائی کا منبہ ہوتے ہیں۔ آسمانی فرشتوں تک رسائی کھبی عام انسان کی پہنچ میں نہیں رہی، مگر روز مرہ کی معمولات میں بعض دفع انسانوں کو بھی فرشتہ صفت کہا جاتا ہے، جو کسی نہ کسی انسان کو فائدہ پہنچاتے ہیں، تو دل کی خوشی اور احترام کو ظاہر کرنے کیلیے فرشتہ کی کنیت پاتے ہیں۔ کسی ضرورت مند کی ضرورت پورا کرنے والے کو بھی ضرورت مند، فرشتے کا خطاب نواز کر فرشتہ قرار دیتا ہے، بلکل اسی طرح کسی کی مراد بھرنے والا بھی فرشتہ ٹھہرتا ہے، دانت کے درد کی دوا کرنے والا ڈاکٹر بھی فرشتہ، تو ننگے پیروں چلنے والے یتیم بچے کو جوتے پہنانے والی خالہ بھی فرشتہ، یہ انفرادی عمل بھی انسان کو آسمانی مخلوق کے صفات سے نوازتی ہے، اس بحث میں پڑے بغیر کہ آسمان میں فرشتے ہوتے ہیں یا نہیں، یہاں اس صفت کو سمجھنا مقصود ہے جو دوسروں کی بھلائی اور مدد کیلیے تصور کی گئی ہے۔ جیسے کسی نابینا کی مدد کر کے سڑک پار کرانے والا نابینا کیلیے فرشتہ ہی ہوتا ہے، اسی طرح کسی تاریکی بھری دماغ میں روشنی کیلئے علم کا شمع جلانے والا استاد بھی اس بچہ کیلئے فرشتہ بنتا ہے، جو اس کے تعلیم کا ذریعہ بنا ہے۔
اقوام کی تاریخوں کا جائزہ لیں تو ان میں کرداروں کی ایک طویل فہرست ہوگی، جنہوں نے وقت پر اپنے قومی ضرورتوں کو سمجھ کر اپنی زندگی کو قوم کیلئے وقف کی ہے۔ یہاں پر دی ہوئی قربانی کسی ایک فرد پر نہیں بلکہ کل قوم اور پوری سماج پر اثر انداز ہوتی ہے، یہ وطن کے وہ فرشتے ہوتے ہیں جو فرشتہ صفت ہوکر ہماری جغرافیہ، عزت، ننگ و ناموس، ثقافت، زبان کی حفاظت کرتے ہیں۔ کھبی غور کریں تو جان اور مال کی بازی لگانے والے یہ کردار کتنے عظیم ہوتے ہیں جو ماں باپ سے زیادہ انکے بچوں کی اور آنیوالی نسلوں کی خوشحالی اور کامیابی کو مقصد بناکر اسی پر گامزن رہتے ہیں۔ انکے لاثانی کردار اقوام کو تاریخ میں زندہ رکھتی ہیں، پانی سے پیاس تو ایک ساعت کیلئے بجھ جاتی ہے لیکن تاریخ کی صفحات میں قوم کے نام کا ایک باب روشن کرنا، سورج کی روشنی جیسی تابناک، بلکل کھبی ماند نہ پڑنے جیسا ہے۔
جس طرح انسان کیلیے سانس لینا ضروری ہے، اسی طرح قوم کیلئے ایسے فرشتہ صفت جوانوں کا پیدا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ بغیر کسی غرض و خواہش کے اپنی قومی مفادات کے تحفظ کیلیے جان کی قربانی دیکر اپنی قوم کو باوقار اقوام میں شامل کرسکیں۔ تاریخی کردار ادا کرنے والے اپنے اسلاف کی پیروی کریں، زندہ و تابندہ قوم بننے و رہنے کی، انکے خوابوں کی تکمیل کریں۔
ان گمنام فرشتوں میں شامل ہزاروں ناموں میں سے ایک شہید وحید بلوچ کا ہے، جس کے وطن کیلئے روشن کردار نے اسے وطن کے ان فرشتہ صفت بیٹوں کے صف میں شامل کیا جو قومی غلامی کے تاریک دور میں بھی روشنی کے مشعل تھامے ہوئے، آنیوالی نسلوں کی خوشحالی و رہنمائی کیلئے، وطن کی عظمت پر جان نچھاور کی۔ شہید وحید جان اپنے گھر اور خضدار شہر کے ان چمکتے ستاروں میں سے ایک تھا جس نے خوف و بربریت کو شکست دیکر طاغوتی طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہ کر، وطن کی آزادی کیلئے سیاسی و سماجی کردار بن کر شعور و عقل کی گہرائیوں میں اتر کر اپنی کوششوں سے شمع آزادی کو روشن رکھا۔ وطن کی عظمت و جدو جہد سے عشق و لگن ان فرشتوں کی معصومیت اور بہادری میں اضافے کا سبب بنتی ہے، جسکی وجہ سے یہ ظالم و جابر قوتوں کے آنکھوں میں کھٹکتی رہتی ہیں۔ جبر و خوف انکے شعور سے ڈرتی ہیں، وہ ان فرشتہ صفت کرداروں کے جان کے درپے ہو جاتے ہیں، انکے خیال میں ان گمنام فرشتوں کو راستے سے ہٹاء کر انکے شعور و فکر سے پھیلنے والی روشنی کو ختم کردیں گے اور قومی غلامی سے چھٹکارہ اور بیزاری کے سوچ کو ختم کرکے قوم کو مستقل غلامی کی زنجیروں میں جکڑ پائیں گے۔ مگر یہ خواب ان ننھی روحوں کو کچلنے کے بعد بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوپاتی۔
شہید وحید بلوچ کے گھر کا شمار بلوچستان کے ان باعزت اور وطن کے فکر و آزادی وطن کے نظریئے پر یقین رکھنے والے خانوادوں میں ہوتا ہے، جو نسل در نسل قومی جہد میں شامل رہ کر قربانی دیتے آ رہے ہیں۔ شہید کے والد محترم انیس سو ستر کی دہائی میں بی ایس او کے سیرت چوک پر ریلی میں ریاستی فورسز سے مدبیھڑ میں آنکھوں کے متاثر ہونے کیوجہ سے دماغی و نفسیاتی طور پر کافی متاثر و ضعیف ہوگئے تھے۔ سن دو ہزار نو سے اسی خانودہ کے ایک چشم نور کبیر بلوچ کو ساتھیوں سمیت جبری طور پر گمشدہ کیا گیا ہے۔ آج بھی انکی عظیم ماں اپنے بیٹے کی بازیابی کیلیے انتظار کرتی ہے۔ بلوچستان اپنی جبری الحاق کے بعد سے انسانی حقوق کی پامالیوں کی وجہ سے ہمیشہ باہمت، نظریاتی و شعوری طور پر بالغ فرزندوں کیلیے امتحان کا میدان رہا ہے، وطن کے یہ باہمت کردار ہمیشہ سرخرو رہے ہیں، یوں شہید وحید بلوچ بھی مستقل مزاجی، ہمت، جرات سے قومی جہد سے آخری دم تک جڑے رہنے والے فرزندان وطن کی صفوں میں شامل رہے۔
سن دو ہزار بارہ کو دشمن کی گولیوں نے شہید وحید بلوچ کو اپنے نو عمر ساتھی سلمان بلوچ کے ساتھ قوم سے جسمانی طور پر جدا کردیا۔ وطن کے ان سچے فرزندوں کی نظریہ آزادی و انسانی غلامی کے خلاف گونج، آج دنیاء کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ چکی ہے۔ آج ان باضمیر سچے فرزندوں کی شہادت کے دن، ہر اس ساتھی جہد کار کو اس قومی قرض کی یاد دلاتیں ہیں، جسکے لیئے انہوں نے موت کی جھولی میں اپنی جوانی کو خود سپرد کیا۔ ان کی جہد مسلسل، نسل در نسل اس جہد کی کامیابی کو ثابت کرتی ہے کیونکہ جہد آزادی ایک مسلسل اور مستقل جہد کا تقاضہ کرتی ہے، آج ان شہیدوں کا لہو قوم کو راستہ و منزل دکھاتی ہے۔ مہذب اقوام جنگ کو پسند نہیں کرتے لیکن جب ان پر جنگ مسلط کی جائے تو قوم کے جوان میدان کار زار کو زینت بخشتے ہیں۔ زمانہ امن اور جنگ میں اپنے وطن کیلیے فرشتہ صفت ہوکر رہنا ہی سرمچاری و جانثاری ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔