جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں طالبان تین حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے ایک حصہ امریکہ کے ساتھ دوسرا افغان حکومت اور تیسرا حصہ چین اور روس کے پشت پناہی میں لڑیں گے اور وہ یہ نعرہ لگائیں گے کہ ہم امریکہ کو خطے سے نکالنا چاہتے ہیں ۔
امریکن افغانستان سے مکمل انخلا کے خواہش مند نہیں البتہ غیر ضروری افواج کو واپس کرنے کا سوچ رہے ہیں تاہم غیر ضروری افواج بھی شرائط کے بعد واپس کی جائیں گی ہم اسے امریکہ کی افغانستان میں شکست سے تعبیر نہیں کر سکتے کیونکہ شکست اسے کہا جاتا ہے جب مورچے خالی کئے جائیں مگر وہ تو اپنے مورچوں میں بدستور موجود ہیں البتہ کچھ چوکیاں خالی کرنے کا سوچ رہے ہیں ۔
خدا نہ کرے پٹھانوں میں داعش پیدا ہو پاکستان کی کوئی افغان پالیسی ہی نہیں جنگ کسی صورت ہمارے مفاد میں نہیں پنجاب کے لوگ نواز شریف کے حمایت میں آگے نہیں آ رہے بلوچ اور پشتونوں کو آپس میں لڑانے کی تمام سازشیں ناکامی سے دوچار ہو چکی ہیں ۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جے یو آئی جعفرآباد کے ضلعی امیر ڈاکٹر حفیظ الرحمن کھوسو کے رہائش گاہ پر مقامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا اس موقع پر جے یو آئی کوئٹہ کے امیر سینیٹر حافظ حمداللہ سابق سینیٹر ڈاکٹر عزیزاللہ ساتکزئی مولانا شفیع محمد لاشاری سابق ضلعی امیر مولانا ابوبکر لاشاری مولوی منیر احمد بھنگر و دیگر بھی ان کے ہمراہ تھے۔
مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ امریکن جو شرائط عائد کریں گے وہ ان سے ان شرائط کی خلاف ورزیاں بھی کرائیں گے تاکہ اپنے اصل مقاصد کو آگے بڑھا سکیں البتہ امریکہ افغانستان سے اپنے ان فوجیوں کو نکالنے کے خواہش مند ہیں جو ان کیلئے غیر ضروری ہیں ۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو طبقہ امریکہ کے ساتھ مفاہمت کرے گا وہ داعش سے لڑے گا اور میں یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کی داعش امریکہ خود پیدا کرے گا جن علاقوں میں سنی آبادی ہو گی ان علاقوں میں داعش شیعہ ہونگے اور جن علاقوں میں شیعہ آبادی زیادہ ہو گی داعش وہاں سنی ہونگے اور یہ تاثر دیا جائے گا کہ یہ جنگ شیعہ اور سنی کے درمیان ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ جنگ کبھی نہ ختم ہونے والی ہے ممکن ہے کچھ ماحول بنائیں ۔
ایران سے لڑنے کیلئے کہ وہ کافر ہیں اور ہم انہیں مسلمان بنانا چاہتے ہیں خدا نہ کرے کہ سندھ کے بارڈر پر داعش پیدا ہوں جو پنجاب سے لڑیں اللہ نہ کرے بلوچستان کے پشتون علاقوں داعش پیدا ہو جو بلوچوں سے لڑے مولانا محمد خان شیرانی کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی جنگ کی حمایت نہیں کرتے کیونکہ وہ جنگ مخالف ہیں بقول انکے وہ سب سے یہی کہتے ہیں کہ نہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑو اور نہ اس کیلئے کسی سے لڑو۔بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے ۔
دنیا کے نقشے از سر نو تبدیل ہوں کیونکہ یہ چوتھی عالمی جنگ ہے کچھ لکھاریوں نے اسے تہذیبوں کا جنگ قرار دیا ہے لیکن یہ جنگ اسلام اور امت مسلمہ کے ساتھ ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ برطانیہ فرانس چین اور روس دنیا کے بڑے وڈیرے ہیں اور یہ جنگ دراصل ان کے درمیان ہے اور یہ ان کے آپس کی لڑائی ہے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا دشمن سرحد پار نہیں بلکہ سرحد کے اندر موجود ہے۔