شہید رازق جان، تاجِ بلوچاں ۔ سنگت زید بلوچ

667

شہید رازق جان، تاجِ بلوچاں

تحریر : سنگت زید بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

شہید بلال مادر وطن کے وہ عظیم فرزند، جنہوں نے اپنے جانباز ساتھیوں شہید رئیس جان وشہید ازل جان کے ساتھ بلوچ قومی آزادی کی جہد میں ایسا عظیم کارنامہ سرانجام دیا، جس کی ماضی میں نذیر نہیں ملتی، شہید فدائین نے نا پاک قابض دشمن کے دل پر وار کیا اور دشمن اور دنیا کے تمام سامراجی و استحصالی قوتوں پر واضح کردیا کہ بلوچ گلزمین مادر وطن بلوچستان لاوارث نہیں کہ جو بھی آئے، اس کا سینہ چیر کر اس کے وسائل بے دردی سے لوٹے اور اپنے ناپاک قدم جمائے اور قابض پنجابی ریاست کے ساتھ ملکر یہاں بلوچ قومی استحصال، لوٹ کھسوٹ و بلوچ نسل کشی میں شریک ہوکر سامراجی منصوبوں کو آسانی و سکون سے مکمل کردے۔ چاہے وہ جتنی بڑی طاقت ہو، بلوچ محب وطن قوم دوست جانباز فرزندوں کے قہر سے نہیں بچ سکتا۔ شہید فدائین کا وہ انمول وار “اپریشن دفاعِ وطن” دشمن کے دل و دماغ اور پوری دنیا پر اثر انداز ہو گیا، جو انکے مشن کی کامیابی تھی۔

کراچی جیسے بڑے شہر اور وہ بھی انتہائی حساس و پوش علاقے ڈیفنس میں عالمی سامراج چینی قونصل خانے تک کامیابی سے پہنچ جانا، حملہ کرنا اور پاسپورٹ سیکشن تک پہنچ جانا، ڈیڑھ گھنٹے تک یرغمال و قبضہ کرنا اور انتہائی بہادری سے شیر کی طرح اندر گھسنا، دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنا، واقعی لاجواب وار تھا، جس نے دشمن کو نفسیاتی شکست دی۔

قوم دوستی، وطن دوستی میں جذبہ دفاعِ وطن کا کوئی حد و سیما نہیں ہوتا، وہ کہیں بھی، کھی بھی فدائی بنکر تباہی بنکر دشمن کی بنیادیں ہلا کر وطن کی ہواؤں میں فنا ہوجاتے ہیں، جو ایک شعوری، فکری و نظریاتی فیصلہ ہے۔ جس کے سامنے دنیا کے تمام طاقتور مجبور و لاچار ہیں۔

شہید فدائین کے مشن نے دنیا بھر میں بلوچ قومی پیغام و آزادی کے جنگ کو واضح طور پر دنیا کے سامنے لایا، بیس سال کی جدوجہد، جنگ، بیس منٹ میں ہر براعظم میں بیک وقت زیر بحث رہی۔

شہید فدائین رازق بلال بلوچ، بلوچستان کے ایک پسماندہ علاقے خاران سے تعلق رکھتے تھے۔ شہید ایک سیاسی کامریڈ، ادیب، شاعر اور ایک بہترین لکھاری تھے۔ ایک مہروان سنگت جو دیوانوں کو اپنے دلکش ہنسی اور دلچسپ باتوں سے رونق بخشتا۔ شہید کبھی کسی سنگت کو پریشان و بور ہونے نہیں دیتے، اپنے دلکش و مہروان اندازِ گفتگو اور منتق، دلیل و زانت سے سنگتوں کی ہر قسم کی کنفیوژن دور کرتا، اپنے شعر و شعاری، غزلوں سے محفل سجایا کرتا۔ جس کی عظیم کارنامے و شہادت پر بلوچ قوم نازاں ہے۔

بلوچ گلزمین کے سرمئی پہاڑ و صحرا، وطن کی ہوائیں بھی فخر وناز کرتی ہیں کہ ہم میں شہید رازی کا پناہ گاہ و مسکن رہا ہے۔ شہید کی شہادت کے بعد شور کے پہاڑوں میں وہ میٹھی سی ہکل، جو سنگتوں کو رازی دیتا، و ہنسی و قہقہوں کی گونج کہیں گونج رہی ہیں، جو شاید بلال جان کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ شہید رازق بلال جان نے اپنے علاقے خاران کو ایک اعلیٰ مقام دلادیا۔ جو شہید کا آبائی علاقہ ہے، جسے اب رازی کا دیار کہا جائے تو برحق ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔