دو سال گزر جانے کے بعد ایف آئی آر کا درج ہونا متاثرہ خاندان کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے مترادف اور پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے – نصراللہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک رپورٹ کے مطابق لاپتہ شبیر بلوچ کی گمشدگی کا ایف آئی آر دو سال بعد درج کرلی گئی۔
لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویئٹر پر اس حوالے سے کہا ہے کہ میں دو سال کے بعد اپنے لاپتہ بھائی شبیر بلوچ کا ایف آئی آر درج کرانے میں کامیاب ہوگئی ہوں۔
شبیر بلوچ کو 4 اکتوبر 2016 کو لاپتہ کیا گیا اور اس حوالے سے ہمارے پاس کوئی معلومات نہیں ہے جبکہ میں شبیر بلوچ کی بازیابی کیلئے ان کے اہلیہ کے ہمراہ احتجاج کررہی ہوں۔
سیما بلوچ کا کہنا ہے شبیر بلوچ کی بازیابی تک ہم آرام سے نہیں بیٹھیں گی۔
After two years finally I am successful to file FIR of my missing brother Shabir Baloch.Shabir is missing from 4 October 2016 and till today we have no trace of him and I along with Shabir’s wife are protesting.I will not sit at home till my brother is released #SaveShabirBaloch pic.twitter.com/OBEPaVMOcQ
— Seema Baluch (@SeemaBaluch) February 23, 2019
ٹی بی پی کے نمائندے نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ سے رابطہ کیا اور ان سے دو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد ایف آئی آر درج کیے جانے کے حوالے سے دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا کہ دو سال گزر جانے کے بعد ایف آئی آر کا درج ہونا متاثرہ خاندان کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے مترادف اور پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔
نصراللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے 2010 میں ایک آرڈر جاری کیا تھا جس کے تحت جس تھانے کے حدود سے کوئی شخص لاپتہ ہوتا ہے اس علاقے کے ایچ ایس او کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ لاپتہ شخص کے لواحقین کے بیان کو قلم بند کرکے ایف آئی آر درج کرے گا اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اگر کسی شخص کے حوالے سے ایف آر درج نہیں ہوتی ہے تو وہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔ قانونی لحاظ سے اگر متاثرہ خاندان کا ایف آئی آر درج نہیں ہوتا ہے تو ایس ایچ او کے خلاف ضلعی عدالت میں ایک درخواست جمع کیا جاسکتا ہے جس کے تحت ضلعی انتظامیہ ایس ایچ او کو ایف آئی درج کرنے کے حوالے سے حکم نامہ جاری کرے گا لیکن بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اس قانون کو اپنے حق میں استعمال نہیں کرتے ہیں جس کے باعث ہمارے کیسز متاثر ہوتے ہیں۔
نصراللہ بلوچ کا مزید کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے لاپتہ افراد کے متاثرین کا موازنہ کیا جائے تو ایک بڑا فرق نظر آتا ہے۔ خیبرپختونخواہ میں اس وقت 3 ہزار کے قریب کیسز عدالتوں میں ہے اور ان ہی قانونی حقوق کو استعمال کرتے ہوئے متاثرہ افراد نے ایف آئی آر درج کروائے ہیں جبکہ بلوچستان میں اس وقت صرف 65 کیسز پر ہائی کورٹ میں کارروائی ہورہی ہے اور ان کارروائیوں میں بھی لواحقین حاضر نہیں ہوتے ہیں جس کے باعث کئی کیسز خارج کیے جاچکے ہیں۔
نصراللہ بلوچ نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین قانونی طریقہ کار کے تحت اپنے پیاروں کے حوالے سے ایف آئی آر درج کرنے کی کوشش کرے تو وہ سالوں نہیں بلکہ مہینوں اور ہفتوں میں درج کیے جاسکتے ہیں۔