سوشل میڈیا پر پسپائی نئی حکمت عملی کیا؟
نادر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سوشل میڈیا کی اہمیت و افادیت پر پاکستانی فوج کے ترجمان اکثر و بیشتر کسی بھی صارف سے زیادہ عقل و دانش سے رائے دیتے نظر آتے ہیں۔ جنگی صورتحال میں ِگھری مملکت نے ایسا کوئی ایک محاذ نہیں چھوڑا جہاں سن اکہتر کے غازی اپنے غیرفطری وطن کی دفاع میں مورچہ زن نہ ہوں۔ فیس بک پر جاسوسوں سمیت غزوہ ہند میں حصہ لینے والی برگیڈ کے برابر تعیناتی ہوئی، چھوٹے دشمن سے لیکر بڑے تک سب پر نظر اور دور مار توپوں سے مسلسل شیلنگ جاری رہتی تھی۔ صحافی، سیاست دان، طلباء، بلاگرز، مرد دشمن اور غدار عورتوں سمیت، فیفتھ جنریشن وار کے نام پر سبکو جنگ عظیم سوئم میں نشانہ عبرت بنایا گیا۔ بلوچ، کے بعد سندھی، پھر مہاجر اور پشتون قوم پرست غداروں کے خلاف الگ الگ وقتوں میں مگر کامیاب حملوں کے بعد شامت پنجاب کے فتنہ پرور بلاگروں اور دشمن کیلیے دردِ دل رکھنے والے صحافی و سماجی کارکنوں پر توپوں کا رخ موڑ دیا۔ سینکڑوں کو غداری کے سولی پر چڑھا دیا۔ جن میں ممتاز خاتون وکیل کم انسانی حقوق کی علمبردار محترمہ عاصمہ جہانگیر بھی شامل تھیں، جو موت کی آغوش میں جانے سے پہلے تک غدار رہی۔ کراچی سے ثبین محمود کو بھی حق و باطل کی جنگ کے نام پر سانسیں چھین کر اسکی معصوم مسکراہٹ کو ہمیشہ ہمیشہ کیلیے معدوم کرلیا۔
محاذ پرموجود فوجی قیادت پرعزم و باصلاحیت جوانوں کی حوصلہ بلند رکھنے کیلئے ہونہار، جنرل آصف غفور ہنگامی پریس ریلیز کرکے دشمنوں کے کمر توڑنے کے اعلانات کرتے رہتے ہیں۔ محاذ پر ذمہ داریاں بڑھیں، دشمن کی پیش قدمی کی خبریں رپورٹ ہوئے تو ریزرو فورس اور افغانستان کے گرم محاذ پر موجود احسان اللل احسان اور پنجابی طالبان کے رہنماء امیر معاویہ کی خدمات حاصل کیں۔ جنکی قابلیت اور جنگی مہارت کے ڈھول اے پی ایس کے مرحوم طلباء کے والدین، اور فضل خان ایڈوکیٹ ہر محفل میں بیان کرتے ہیں کہ کس مہارت سے طالبان نے فوج کے ساتھ مل کر اس اجتماعی نقصان کو کم کیا۔ سویلین شعبوں سے یکساں اہمیت اور برابر سلوک کیا گیا۔ بعض شعبہ جات کے فخر و غرور کو عاجز بنا دیا گیا، استادوں، شاگردوں پر مہربانی ایسی ہوئی کہ مشعال خان کو دن دھاڑے موت کے حوالے کیا گیا، نامور مفکر و قلم کار جناب سلمان حیدر صاحب کو محب الوطنی کے وہ سبق دیئے کہ موصوف اب کیینڈا سے ایک ٹی وی چینل پر اس پیغام و پنت کو آنے والی نسلوں کو منتقل کرنے کا ذمہ بہ رضا اٹھا چکے ہیں۔ کامریڈ نور مریم جو انسانی حقوق کیلئے کراچی، لاہور اسلام آباد، بلوچستان میں آواز بلند کرتی تھیں، اب لندن جیسے ٹھنڈے ملک میں رہ کر جلاوطنی کے ساتھ کالا پانی جیسی زندگی گذارنے پر مجبور ہے۔
نقیب کی شہادت اور پروفیسر حسن ظفر عارف کو بزرگ شہری ہونے کے باوجود ماروائے عدالت تشدد سے قتل کیا گیا۔ یہ سب وہ کردار ہیں جنکو حق اور سچ بولنے اور سوال پوچھنے کی سزاء دی گئی۔ ہدایت پانے والوں میں جیو نیوز کے حامد میر بھی شامل ہیں۔ باقی لوگوں کی تعداد اب ہزاروں میں ہے، گنتی درست نہ ہونے کی شک پر مسنگ پرسنز کے کیمپوں پر رش کش اور خواتین بچوں کی آہوں اور سسکیوں کو دیکھ کر دل کی تسلی ہوجاتی ہے۔
ان میں ایک کہانی خضدار سے لاپتہ کبیر بلوچ اور اسکے دیگر دو ہم عصروں کی ہے۔ مکینک ہونے کے سبب مشکل سے گھر کے اخراجات پورے کرنے والے نوجوان کو اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے آخری سال ایسے غائب کردیا گیا کہ اب دوسرا عشرہ بھی ختم ہونے کو ہے، مگر اسکی بوڑھی و بیمار ماں کی آنکھیں اب بھی راہ تکنے سے نہیں تھکتیں۔ اب کوئی غریب گھر کا فرزند کبیر کی طرح رات دیر تک محنت نہیں کرتا، چاہے بوڑھی بیمار ماں بھوکی ہی نہ سو جاۓ۔ قصور کیا تھا اسکا؟ سزا کبیر، اسکی ماں، خاندان کے حصے میں ایسا آیا کہ کبیر دس سالوں سے لاپتہ ہے، ماں آج بھی گمشدہ بچے کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ پنجاب اور بلوچستان کے محاذ پر متحرک دشمن کی ایکٹیوسٹوں میں واضح فرق محسوس کی جاسکتی ہے، پنجاب والوں کو عقوبت خانوں میں رکھ کر مہینے دو مہینے میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ بلوچستان والوں کو اٹھا کر سالوں گمشدہ رکھا جاتا ہے، اگر خوش قسمتی سے قلی کیمپ میں راشن کی کمی ہو جائے تو سال دو سال بعد آنکھیں، گردہ، جگر نکال کر باقی ماندہ جسم سڑک کنارے پھینک دی جاتی ہے۔ اور یوں دشمن کا ایک مورچہ خالی سمجھ لیا جاتا ہے۔ نشانہ سیدھا کرنا ہو تو سر میں گولی مار دیتے ہیں۔ بعض اوقات تو حرکت انصار جیسی تین چار تنظیمیں اخباروں میں فخریہ ذمہ داری تک قبول کرتے تھے۔ یہ دیکھ کر معلوم پڑتا ہے کہ بالادست قوم کی دفاع ناقابل تسخیر اور قابل و جری ہاتھوں میں ہے۔
دنیا کی نمبرون فوج کی پسپائی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹوں کو ہضم نہیں ہورہی۔ مشرقی محاذ پر جب سے انڈیا کی کاہل و بزدل فوج پسپا ہوئی ہے، تب سے اندرونی محاذ پر جوانوں کو مشقیں کروائی جارہی ہیں، خیسور میں ہونے والا حالیہ واقعات جوانوں کے بے باک جذبوں کی ترجمانی ہے کہ بے شک ملک ٹوٹ جائے مگر اوقات بنگلہ دیش والی رکھنی ہے۔ بلوچستان، کشمیر، گلگت بلتستان، سوات، خیبر پختون خواہ سے کوئی خیر کی خبر آئے نہ آئے لیکن وہاں پر دشمن کی عورتوں تک کو اغواء کیا جاتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک کیا وجہ بنی کی جیتی ہوئی بازی دشمن کی جھولی میں ڈال کر فوجیوں پر سوشل میڈیا پر پسپائی کا حکم دینا پڑا؟ حالیہ امریکہ، طالبان مذاکرات کے ثمرات وقت سے پہلے وصول ہونا شروع تو نہیں ہورہے؟ یا حمکت عملی کی تبدیلی ہے یا دشمن پر وار ابکی بار کسی اور سافٹ ویر سے کرنی ہے؟ کچھ نیا یا پرانا بہرحال اس امر پر غور کرنا عوام کیلئے ضروری ہے۔ سرخ ٹوپی والے بونوں کی ڈانس سے لیکر کٹھ پتلی صحافیوں، ہینڈ میڈ سیاست دانوں تک سب نے حب الوطنی کے فرائض کو بخوبی نبھایا، کسی کو گستاخِ رسول تو کسی کو نافرمان, قرار دیکر ریاستی رٹ بحال ہوتی رہی ہے۔ اب یہاں تک کہ ڈان اخبار اور جنگ و جیو نے بھی “لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمناء میری” زبانی یاد کرلی ہے۔ پھر یہ اچانک پسپائی؟ سقوط ڈھاکہ جیسے حالات بھی تو نہیں جب جنرل یحیٰ خان نے کہا تھا، سب ٹھیک ہے اور مکتی باہنی، جوانوں کی اینٹ سے اینٹ بجارہی تھی۔
سوشل میڈیا سے فوجی آفیسروں کو دور رکھ کر اپنے بطن اور ناکامیوں سے ابھرنے والے انقلاب کو روک نہیں سکتے۔ اس حق و سچ کی جنگ کو روکا نہیں جاسکتا، یہ تضاد نظریاتی تضاد ہیں، انکی بنیادیں انیس سو سینتالیس، پھر انیس سو اٹتالیس میں پیوست ظلم، جبر، غیر منطقی، غیر فطری، انگریزوں کی سازشیں ہیں، جس نے آج تک کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو مرگ و زیست کی کشمکش میں ڈالا ہے۔ یہ کسی ایک جنرل کی، یا سیاستدان کی غلطی نہیں بلکہ اس تاریخی خطا کی دین ہے جس نے آزاد و تہذیب یافتہ اقوام کو غلامی کی دلدل میں دکھیل دیا ہے۔ جتنا بھی خون خرابہ کریں، لاکھوں لوگوں سے زندگی کا حق چھین لیں مگر کچھ ہونے والا نہیں۔ لوگ اور باشعور انسان سوال ضرور اٹھائیں گے۔ قبرستان اور ٹارچر سیلز بھر چکے، مگر ہوا کچھ بھی نہیں۔ قوموں کے قومی سوال کو سمجھنا ہوگا۔ اسکا حل تلاشنا ہوگا، انکی ہزاروں سالہ تاریخ کا احترام کرنا ہوگا۔ انکی تہذیب و تمدن کے روشن بابوں کو ماننا ہوگا۔ شکست جھوٹ کا مقدر ہے، فنا باطل کی قسمت ہے، تم اور تمھاری یہ گھمنڈ، یہ جھوٹی طاقت یہ شان سب فنا ہونگے کیونکہ تمہاری بنیاد اور تمھارا دو قومی نظریہ جھوٹ ہے۔ نظریات کی حقیقت کو سمجھو، سراب میں جتنا تیز بھی دوڑو گے پانی پھر بھی نہیں ملے گا۔نظریہ قتل نہیں ہوسکتا، نظریہ مٹ نہیں سکتا کیونکہ نظریہ جسم نہیں نظریہ روح ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔