سوئی بلوچستان سے خیسور پختون وطن تک – نادر بلوچ

491

سوئی بلوچستان سے خیسور پختون وطن تک

نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بنگلہ دیش میں سیاہ کارناموں کی روئیداد تاریخ کے پنوں پر بریگیڈیروں، میجروں کی تحریروں سے تاریخ، سیاسیات، نفسیات، غرض سماجی علوم کی اکثر و بیشر طالب علموں کی آنکھوں کے سامنے سے گذر کر گوش گذار ہوچکیں ہیں۔ دنیا میں کسی بھی ملک کی آرمی خود اپنے ہی سول آبادیوں پر چڑھ دوڑتی ہے اور بچے بوڑھے کا لحاظ کیئے بنا وحشیوں کی طرح بچیوں اور عورتوں کی ننگ و ناموس خاک میں ملا کر انسانیت کو شرمسار کرتی ہے۔ اتنے سالوں بعد بھی بنگلہ دیش کی مائیں اور بہنیں ان زخموں کو فراموش نہیں کر پاتی، حکومتی سطح پر ان غیر انسانی اور جنگی جرائم کی فہرست کو حکومت بنگلہ دیش نے اپنے تاریخ کا حصہ بنایا ہے، ان تصویروں اور تحریروں کو آج بھی میوزیم میں رکھ کر مملکت خداداد کی اس گمراہ فوجی قوت کو آئینے کی طرح اپنی بدکرداریوں، اور سیاہ کرتوتوں کا کالا چہرہ دکھاتی رہتی ہیں۔

سنہ دو ہزار کے بعد باقائدہ منصوبہ بندی سے بلوچستان اور بلوچ قوم پر فوجی یلغار ہوئی جو وقت کے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کی سربرای میں شروع ہوئی، مقصد، بلوچ ساحل و وسائل کو ہڑپ کر فوجی طاقت و گھمنڈ کا مظاہرہ کرنا تھا۔ آپریشنوں میں نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع ہوئیں، مال مویشی لوٹے گئے۔ چھاونی اور فوجی چیک پوسٹ قائم کر کے شہریوں کی عزت نفس مجروح کی جانے لگی۔ قوم پرست قوتوں کو اس خطرے کا احساس ہوا، جو ان پر مسلط کی جاری تھی۔ بلوچستان کے طول و عرض میں سیاسی بیٹھک لگنے شروع ہوگئے تھے۔ ریاست اپنی پوری طاقت بلوچستان منتقل کرتی جارہی تھی، کوہلو، کاہان، سوئی ،ڈیرہ بگٹی، گوادر سمیت فوجی نقل حرکت میں اضافہ ہورہا تھا تو دوسری جانب بلوچ نوجوان بھی چھوٹی مگر موثر کاروائیوں سے اپنے باخبر ہونے اور جنگ کے طبل بجا کر ریاست کو مزاحمت کا پیغام سنا رہے تھے۔

سوئی، ضلع ڈیرہ بگٹی، بلوچستان سے گیس دریافت ہونے کے بعد سے ہی پاکستان کے آخری کونے تک گھروں کے چولہے اور صنعت کاروں کے کارخانوں کی بٹھیوں کو ایندھن فراہم کررہی ہے۔ مشرف اس لوٹ مار میں تیزی سمیت بلوچستان کے وسائل پر مکمل دسترس کیلئے فوج منتقل کرنا شروع کر چکا تھا، جس سے بابا خیر بخش مری، نواب بگٹی، بلوچ اتحاد کے نشان بالاچ مری، چیئرمین غلام محمد بلوچ، سردار اختر مینگل سمیت دیگر قوم دوست رہنماوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ بلوچ ننگ و ناموس کو خطرہ لاحق ہوچکا تھا۔ جس فوج کی بنگال میں سیاہ کاریوں پر کتابیں تک چھپ چکیں تھیں، اب وہی فوج بلوچستان کے شہروں میں براجمان تھی۔

سوئی میں پی پی ایل نامی کمپنی نے ہسپتال بنا رکھی تھی، جس میں ڈاکٹر شازیہ خالد نام کی ایک خاتون ڈاکٹر مریضوں کا علاج معالجے کے خدمات سر انجام دیتی تھیں۔ ایک رات فوجی کیپٹن حماد اور اسکے کچھ فوجی ساتھی ڈاکٹر شازیہ خالد کے رہائشی کوارٹر میں زبردستی داخل ہوکر لیڈی ڈاکٹر کو زبردستی اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنانے میں کامیاب ہوگئے اور متاثرہ خاتون کو ادھ مری حالت میں چوڑ کر واپس اپنی چیک پوسٹ پر چلے گئے تھے۔ یہ خبر نواب بگٹی سے لیکر بلوچستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی تھی۔ ماحول میں تناو میں اضافہ اس وقت ہوا جب نواب اکبر بگٹی نے حکومت وقت سے کیپٹن حماد کے خلاف کاروائی اور سزاء کا مطالبہ کیا لیکن معاملہ مزید اس وقت بگڑ گیا جب جنرل مشرف نے فوجی آفیسر کو تفشیش کیے بنا بے گناہ قرار دیا۔ راتوں رات سندھ سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر شازیہ خالد کو شوہر سمیت ملک بدر کرکے امریکہ روانہ کیا گیا۔ روانگی سے قبل شازیہ سے اپنے میڈیا کے ذریعہ حماد کو بے قصور ہونے اور ناقابل شناخت ہونے کا بیان دلوایا گیا۔ جس پر بعد میں ڈاکڑ شازیہ نے امریکہ پہنچ کر دباو کا ذکر اور نواب صاحب سے معذرت بھی کی تھی۔

ریاست کی ایک مجرم کی طرفداری نے جلتی پر آگ کا کام کیا جس سے بلوچستان میں نفرت اور غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ بلوچوں اور فوج کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئی۔ بلوچستان کے غیور فرزندوں نے اپنی سرزمین پر ایسے گھناونے فعل کے خلاف شدید ردعمل دکھایا اور پے درپے وار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سندھی خاتون کی عصمت کی خاطر قربان ہوکر عورت کی عزت و عظمت کی حفاظت کی لاثانی مثال قائم کی۔

آج ایک بار پھر تاریخ کا ایک اور سیاہ باب انہی فوجیوں کی ایک اور سیاہ واقعہ دہرا رہی ہے لیکن اسکا شکار اب کی بار غیرت مند، تہذیب و تمدن کے امین پختون قوم کی سرزمین ہے۔ شمالی و جنوبی وزیراستان کی زمین کو جیٹ طیاروں، کلسٹر بموں، ٹینکوں اور توپوں سے تہہ و بالا کرنے کے بعد اب وہاں کی ننگ و ناموس سے کھیل کھیلا جارہا ہے۔ خیسور نامی ایک شہر سے حیات نامی ایک بچے کی ویڈیو کے بعد اب متاثرہ خاتون کا بیان بھی ویڈیو کے ذریعہ منظر عام پر آچکی ہے، جس میں براہ راست فوجی اہلکاروں کے نام لیکر متاثرہ خاتون اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر آواز بلند کر کے لوگوں کو مدد کیلئے پکار رہی ہے۔ خاتون کو پیسے کی لالچ اور دھونس دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں تاکہ اس حساس مسئلے سے لوگوں کی توجہ ہٹ جائے، اس ظلم پر آواز بلند کرنے والے انسانی حقوق کی کارکنوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ ردعمل اور غصے میں اضافہ ہورہا ہے۔ ریاست اور ملوث فوجی ادارہ پروپگنڈہ مہم کے ساتھ ساتھ مخصوص میڈیا اداروں اور لفافہ پرست ٹولے کی مدد سے اسکو سازش قرار دیکر متاثرہ خاندان سمیت پختون وطن و قوم کی رسم رواج، ننگ و ناموس کا مزاق اڑا رہے ہیں جو کسی بھی طرح آگ سے کھیلنے سے کم نہیں۔

پیران سال بابو نوروز سے لیکر شیخ مجیب الرحمان کے چھ نقاط تک بالادست قوم نے ہمیشہ اپنی فوجی طاقت و قوت کے بل بوتے پر محکوم اقوام سے حقارت و نفرت کا اظہار اپنے طریقہ سے کرتی ہے۔ نواب اکبر بگٹی کو بھی پہلے مذاکرات میں الجھایا گیا پھر حقارت سے ٹکھرا دیا گیا، پھر ایسی آگ لگی جس کی تپش آج بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ پشتون ننگ و ناموس پر حملہ آوروں نے وہی مذاق پشتونوں کے ساتھ کرکے انکے ہرے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔ فوجی ترجمان جنرل آصف غفور متحرک کردار ہیں، جو شہید نقیب کے قتل پر اور اب خیسور واقعے پر فوج کی سوچ اور ترجمانی کرتے ہوۓ گمراہ کن حد تک متاثرین اور ردعمل میں بننے والی تحفظ موومنٹ کا مذاق بنا دیا ہے۔ حامد میر سمیت دیگر صحافیوں کا ہونے والا اچانک دورہ شمالی وزیراستان اس سلسلے کی کڑی تھی، جس میں متاثرہ خاندان اور پشتون قوم کے جذبات کو جٹھلایا گیا۔

اگر کوئی قوت سنجیدگی سے اس مسئلے کی حساسیت کا ادراک رکھتا ہے تو جلد از جلد ایک غیر جانبدار کمیٹی پشتون مشران اور سیاسی قیادت کی سربراہی میں واقعے کی تفصیلات معلوم کرکے ملوث اہلکاروں کو کڑی سے کڑی سزا دیکر متاثرہ خاندان کو انصاف اور پختونوں کی عزت نفس کو مجروح ہونے سے بچاسکتے ہیں، نہیں تو اس لاواہ کے پٹنے کا انتظار کریں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔