سفید شام
کے ڈی بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
لمبی زندگی کی لمبی موڑوں پر زندگی کی روانی کی رفتار شاید آج کی شام رک ہی گئی، جب چھوٹی سی چھت نما جھگ کی نیچے میں برف باری کا منظر دیکھ رہا تھا۔ پہاڑ، پتھر، حتیٰ کہ ہرشے برف باری کی وجہ سے سفید نظر آرہا تھا۔ جھگ کے سامنے چھوٹی سی نالہ میں پانی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا۔ ساتھ ہی ہلکی بارش اس سما کو کچھ زیادہ ہی دلچسپ بنا رہا تھا۔ قدرت کے اپنے ہی رنگ و خوبصورتی ہوتی ہے۔ اور برف باری بھی ان ہی قدرتی خوبصورتی کا حصہ ہے۔ خوبصورت برف باری شاید خوبصورت دوستوں کی یاد دلارہی تھی، جو پچھلے برف باری میں ساتھ تھے اور آج شھیدوں کے صفوں میں شامل تھے۔
برف باری چرواہوں کیلئے موسم بہار کی نوید جبکہ میرے لئے ایک سفید بلا کے سوا کچہ نہ تھا۔ جس نے بلا کی طرح پوری سرزمین کو ڈھانپ لیا تھا۔ آج کی شام شاید کچھ ادھوری ہی لگ رھی تھی ایسا لگ رھا تھا، شاید میں بہت کچھ پانے کے بعد بھی کچھ کھو چکا ہوں۔ استاد کی بات بہت ہی یاد آرہی تھی جب ایک دفعہ استاد نے بولا تھا کہ تم جس طرح دنیا کو سمجھ رہے ہو یہ دنیا ایسا نہیں ہے، یہ دنیا بہت ظالم دنیا ہے۔ اس وقت یہ بات میرے سمجھ سے بالاتر تھا، میں اس وقت یہ بات نہ سمجھ سکا آج کی شام اس کیفیت کو ایک سکرین کی طرح میرے سامنے لاکر ظالم دنیا کی ظلمت کو واضح انداز میں میرے سامنے ظاہر کررہا تھا۔ لمبی شام شھید دوستوں کی ادھوری باتیں اور ادھوری یادیں، شاید ظالم زمانے کی ظلمت کو واضح انداز میں بیاں کررہی تھی۔ نظام کی مہر بھری باتیں۔ نثار میرل کی خوبصورت مسکراہٹ، نورالحق کی مجلس، رازق جان کے مزاحیہ قصے اور قہقہے۔ کسی شاعر نے کہا تھا کہ
تم زمانے کی بات نہ کر
یہ زمانہ بھی بدل جائیگا
لیکن یہ ظالم زمانہ اپنے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ سرزمین کے شاید سب رنگ شھیدوں کے لہو کے ساتھ بدل گئے تھے۔ اور شہہ مریدو حانی کے قصے قصہ پارینہ لگ رہے تھا۔ بدلتے زمانے کے بدلتے عشق مجازی کے قصوں کی جگہ سر زمین کی عاشقوں نے لی تھی۔ شہہ مرید اور حانی کی جگہ بلال، ازل، رئیس اور ریحان کی قصوں نے لی تھی۔عشق مجازی ھمیشہ مایوسی اور بربادی کا سبب بنا جس کی مثال غالب نے کچھ یوں دی۔ کہ
عشق نے نکما کر دیا غالب
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
جب کہ اس کے بر خلاف سرزمین کے عاشق جذبہ و ہمت سے مجھے لیس نظر آئے۔ میں اس چھوٹی سی جھگ کے نیچے یہ یہ سوچ رہا تھا کہ یہ کون سی چیز ہے کہ استاد اسلم کو اپنا لخت ء جگر قربان کرنے پر مجبور کررہا تھا۔ جب میں بار بار سوچ کر تھک جاتا تو شاعر مرید کے شعر کو دھرا کر دل کو تسلی دیتا ۔ کہ کیسے تجھے ماں نے اس عظیم کام کیلئے بھیجا۔ یہ بات گمان اور بیان سے باہر ہے واقعی یہ و گمان سے باہر ہے۔ شاید اس عشق کی لذت فدائین نے محسوس کیا تھا یا ان کے دلوں میں سرزمین کا درد کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔ انسان ایک عجیب چیز ہے، جب عشق کی دنیا میں کھو جاتا ہے تو سب کچھ لٹا دیتا ہے اور جب خیالات کی دنیا میں کھو جاتا ہے۔ تو ایک جگہ بیٹھے پوری دنیا سمت ماضی کے دنیا کا آسانی سے چکر لگالیتا ہے۔
میں بھی شاید ماضی میں کھو چکا تھا۔ ماضی کے رنگ کچھ زیادہ ہی خوبصورت لگ رہے تھے۔ خیالی دنیا میں گم میں پچھلے برف باری کے ان ایام کو یاد کررہا تھا۔ جب 2017 کی فروری کے ان ہی دنوں میں شہید نثار میرل، شھیدنظام سمت کچھ دوستوں کے ساتھ ایک چھوٹی سی ٹوٹی پھوٹی جھگ میں بیٹھےبرف باری کا مزہ لے رہے تھے۔ جھگ پتھروں کا بنا ہوا تھا۔ جھگ کے سامنے پانی آھستہ آھستہ بہہ رہی تھی، کچھ ہی دیر بعد جب برف باری زیادہ ہوئی تو بہتا پانی رکی ہوئی برف کی طرح دکھنے لگا۔ پورا علاقہ سفید برف سے ڈھکا ہوا نظر آنے لگا۔ ایک دلکش منظر تھا شاید الفاظ اس منظر کو بیان کرنے سے قاصر ہو۔ شہید نثارمیرل کی مہر بھری باتیں اس منظر کو کچھ زیادہ ہی دل کش اور خوبصورت بنا رہی تھیں۔ یہ چھوٹا سا جھگ اب کچہ زیادہ ہی پر رونق نظر آنے لگا۔ چھوٹی سی کالی چائنک جو زیادہ چائے بنانے کی وجہ حد سے زیادہ کالا تھا اور ڈکھنا نہ ہونے کے سبب چائے کو بہت دیر سے تیار کرتا تھا۔ اس کالی چائےدان میں چائے بنانے کے دوران بہت لطف کا سماں تھا، سب دوست چائےدان کے گرد جمع تھے۔ خوب مجلس گرم تھی میرل نثار ہر بات پر خوب ہنستا تھا۔ نظام بار بار چائےدان کے نیچے لکڑیوں کو سیدھا کرتا اور پھونک مارتے ہوا آگ کو دھکاتا، جو بارش کی نمی کی وجہ سے ایک پرانے جیپ کی طرح بار بار جواب دے رہی تھی۔
دوستوں کی یہ محفل مہر بھری باتیں، سوز و بلبل سے زیادہ دلربا تھا۔ مست توکلی نے ایسی ہی شام بارش کے دوران سمو کا دیدار کیا تھا ۔ لیکن کہاں شھیدوں کا محفل کہاں وہ مست توکلی اور اس کا سمو۔ شاید مست توکلی کے مثال سے میرے الفاظ اس منظر کو بیان کرنے سے انصاف نہیں کرسکتے۔ بعض اوقات الفاظ کیفیات کو بیان کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اور یہ لازم بات ہے کہ خالی الفاظ میں خوبصورت منظروں کا رنگ نہیں سما سکتا۔ جھلکتا رہے یہ مہر و وفا کا منظر۔ یہ دلکش منظر، یہ وقت شاید اس وقت کم پڑجاتی ہے۔ دل تو کہہ رہا تھا کہ وقت کی رفتار کو روک لیتا۔ لیکن یہ کائنات اپنی اصولوں کا پابند ہے۔ شاید اسی وجہ سے شاعر نے کہا تھا کہ
یہ کائنات نہیں ایسا منظور
کچھ تو ادھر سے ادھر ہونا چاہیئے
اس سادہ دل شاعر کی سادگی میری طرح ایک آرزو ہی رہا ہوگا۔ کائنات اپنے ڈگر پر چلتا رہتا ہے۔ یہ تو وقت وقت کی باتیں ہے۔ گذرا ہوا کل کبھی واپس نہیں آتا اور آنے والا مستقبل کچھ دیکر، بہت قیمتی وقت اور دوست اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
جب بلبل چمن چھوڑتے ہیں، تو پھول بھی مرجھا جاتے ہیں۔ خوشبو وجود کھودیتے ہیں۔ درختوں کے بکھرے ہوئے شاخیں ماتم کا نشان ہوتے ہیں۔ چمن بے رونق نظر آتا ہے۔ شاید جہاں کا بھی یہی فلسفہ ہوتا ہے۔ شاید سفید برف میں ڈھکا ہوا سرزمین اپنے عاشقوں کیلئے زاری و ماتم کررہا تھا۔ میں اسی سوچ میں گم تھا کہ ایک دوست کالی چائےدان کے ساتہ جھگ کے اندر داخل ہوا اور یارانہ انداز میں آواز لگایا “چلو یار چائے پئیں، اس مزے دار موسم کا علاج چائے ہے۔ چائے کے ساتہ موسم کا مزہ لیں، پھر خدا جانے زندگی رہے یا نہ رہے، یہ موسم ھمیشہ نہیں آتا۔” ان ہی الفاظ کے ساتھ دوست نے مسکراتے ہوئے چائے پیش کی اور مجلس شروع ہوگیا جبکہ میرا خیال خیال ہی رہا۔ جو دھڑام سے گر کر ملیا میٹ ہوگیا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔