سفارتکاری برزکوہی کی تحریر “پیہم جگت” کے تناظر میں – میرک بلوچ

440

سفارتکاری برزکوہی کی تحریر “پیہم جگت” کے تناظر میں

میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

چیزیں ہمیشہ سادہ نہیں ہوتیں، پیچیدہ ترین صورتحال میں چیزوں کو سادگی سے دیکھنا کم علمی کی واضح نشانیاں ہیں۔ انسانی معاشرہ روزاول سے تغیروتبدیلی سے گذر رہا ہے جامد و ساکت کچھ بھی نہیں ہوتا۔ یہی چیزیں سیاست اور جدوجہد پر صادق آتے ہیں، کیونکہ سیاست اور جدوجہد انسانی معاشرے میں ہوتے ہیں اور سیاست و جدوجہد انسانی معاشرے کے سدھار کیلئے ہی کیئے جاتے ہیں۔ یہ عمل اس وقت سے جاری ہے، جب انسان نے شعور کی دہلیز پر قدم رکھا۔ ابتدائی انسان کی زندگی بڑی سادہ تھی، اس وقت ریاست کا کوئی وجود نہیں تھا، طبقات نہیں تھے۔ لیکن خارجی حالات اس کے لئے بھی سادہ نہیں تھے، بلکہ انتہائی پرخطر و پیچیدہ تھے۔ کیونکہ اس کی زندگی قدرت کے رحم و کرم پر تھی اور قدرت کا مرہون منت تھا، اور پھر خارجی حالات کسی کے تابع نہیں ہوتے انسان نے اپنی بھرپور جدوجہد اور ارتقائی مراحل سے گذر کر بہت سے قدرتی عناصر کو تسخیر کیا۔ ناسازگار حالات میں زندہ رہنا سیکھا۔

محترم دوست برزکوہی کی ایک بہترین تحریر “پہم جگت ” نظر سے گذری، جس میں اس بات کی بھرپور عکاسی کی گئی کہ طالبان اور usa کے درمیان مذاکراتی عمل سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کار مزید حوصلہ مندی کے ساتھ بھرپور طریقے سے جدوجہد کو آگے بڑھائیں لیکن میں یہاں ایک اور نقطے پر مختصر طور پر عرض کرنا چاہونگا اور وہ ہے تحریک میں بیرونی سفارت کاری۔ وہ اس لئے کہ محترم دوست نے سفارت کاری کے عمل کو یکسر مسترد کیا۔

موثر سفارت کاری کسی بھی تحریک کیلئے اہم حیثیت کا حامل ہوتا ہے، اور کسی بھی طرح سے اُسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر کی تحریکات میں سفارت کاری ایک جز کی حیثیت سے بھرپور طور پر اپنایا گیا اور کامیابی بھی حاصل ہوئی۔

1970ء اور 1980 کی دہائیوں میں p l o نے اسے انتہائی منظم طریقے سے دنیا کے سامنے اپنے موقف کی پذیرائی کے حوالے سے بروئے کار لایا۔ اور آزاد جلاوطن حکومت کی بنیاد رکھ دی۔ گوکہ فلسطینی تحریک کی ابتدا گوریلہ وار فئیر سے ہوئی، مگر اسے استحکام دینے کیلئے ایک زبردست مدد پارٹی کی پشت بانی حاصل تھی، جس نے مختلف کانفرنسوں، سیمیناروں، مظاہروں اور تحریروں کے ذریعے فلسطینی عوام کی حقیقی صورتحال کو اجاگر کیا۔ یہی وجہ کہ 1990ء کی دھائی میں فلسطین اسرائیل اور usa یورپی یونین کے درمیان یو این او کی قیادت میں جنیوا معاہدے پر دستخط ہوئے۔ یہ الگ بات کہ فلسطینیوں کی اپنی داخلی کمزوریوں اور گروپ بندی کی سبب اسرائیل نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور جنیوا معاہدے کے ثمرات حاصل نہیں ہوسکے۔

1960ء کی دھائی میں ویت نام کی منظم گوریلہ تحریک کی پشت پر بھی ایک جدید ماس پارٹی موجود تھی، جس نے بھرپور طریقے سے ساری دنیا میں سفارت کاری کے زریعے ویت نام کی تحریک کو بین الاقوامی فورمز پر اُٹھایا۔ جس کی وجہ سے ساری دنیا نے حملہ آور قوتوں کے خلاف مظاہرے کیئے حتیٰ کہ امریکی عوام نے بھی شاندار مظاہروں اور مطالبوں کے ذریعے امریکی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا اور 1973ء میں ویت نام اور ہند چینی سے امریکی افواج نکل گئی۔

جنوبی افریقہ کی تحریک ابتدا میں گوریلہ جنگ سے شروع ہوئی، بعد ازاں نیلسن منڈیلا کی قیادت میں a n c جیسے افریقی عوام کی ماس پارٹی نے جنوبی افریقہ کی نسل پرست قبضہ گیر کو بے نقاب کرنے کیلئے دنیا بھر میں اپنے دفاتر قائم کئے۔ جو سفارت کاری بنیادوں پر استوار تھے۔ نیلسن منڈیلا کی طویل قید کو بنیاد بناکر a n c سے ساری دنیا کے پارلیمنٹیرین سے ملاقاتیں کی۔ u n o کو یاداشت اور خطوط بیجھے۔ حتیٰ کہ کلچرل پروگراموں کے ذریعےموسیقی کے کنسرٹ پیش کیئے۔ دستاویزی اور فیچر فلمیں بنائی گئیں، اخبارات و جرائد کا اجرا کیا۔

مندرجہ بالا چند مثالیں اعلیٰ سفارت کاری کی عکاسی ہیں۔ جنکی بدولت ان تحریکوں کو بین الاقوامی طور پر پذیرائی ملی بلکہ انہیں حمایت بھی حاصل ہوئے۔

بلوچ قومی آزادی کی جاری تحریک ایک تاریخی تسلسل ہے۔ مگر تاریخ میں پہلی بار بلوچ قومی آزادی کی تحریک کی گونج بین الاقوامی طور پر نہ صرف سنائی دے رہی ہے بلکہ اس کے ہمدرد بھی پیدا ہورہے ہیں ۔ بے شک یہ سب کاوشیں سرمچاروں کی شب و روز محنت کی رہین و منت ہیں۔ لیکن اس آواز کو بیرون دنیا کے سامنے رکھنے اور بلوچ موقف کو واضح انداز میں بیان کرنے اور دنیا کے سامنے دفاع کرنے میں بیرون ممالک میں مقیم آزادی پسند دوستوں کی محنتیں بھی شامل ہیں۔ واضح رہے یہ کارکن سرفیس سے تعلق رکھتے ہیں (یہاں تحریک کے نام پر بیرون ممالک کاروبار چلانے والے خودغرض و لالچی ٹولے کا ذکر نہیں)۔ جب قابض ریاست نے سرفیس سیاست کو بلوچستان میں انتہائی ظالمانہ انداز میں کچلا تو آزادی پسند کارکن زیر زمین چلے گئے۔ جنکی اکثریت کسی نہ کسی طرح سے بیرون ملک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ان ہی کارکنان نے بیرون ملک نامسائد حالات اور وسائل کی کمی کے باوجود بلوچستان کی حقیقی صورتحال کو بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کیا۔

گوکہ کچھ کمزوریاں ضرور ہیں جسکی وجہ مالی طور پر کمزور ہونا ہے۔ یہ کارکن اپنے وطن عزیز ،عزیز رشتہ داروں سے بہت دور ہیں اس لیئے اپنے گذر بسر کیلئے اور زندہ رہنے کیلئے کام کاج بھی کرنے پڑتے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود یہ کارکن بہت ہی برق رفتاری سے سفارت کاری کے فرائض انجام دے رہے ہیں، جو کسی بھی حوالے سے قابلِ ستائش ہیں۔

مختصراً یہ اب پہلے سے بھی زیادہ ہر محاز پر انتہائی منظم اور سائنسی انداز میں جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ جس میں ایک سفارت کاری بھی موجودہ بین الاقوامی حالات کیلئے ازحد ضروری ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔