بلوچستان سے شائع ہونے والے روزنامہ اخبار توار جو کہ گذشتہ کئی عرصے سے بندش کا ہے کی ادارتی بورڈ نے گذشتہ روز میڈیا میں جاری کردہ اپنے بیان میں کہا کہ روزنامہ “توار” کے ای میل ایڈریس پر موصول ہونے والی سینکڑوں کے حساب سے ای میل میں توار کے قارئین اس بات پر استفسار کر رہے ہیں کہ روزنامہ توار مستونگ کی اشاعت کیونکر بند ہے؟ اس سلسلے میں عرض ہے کہ روزنامہ “توار” مستونگ کی اشاعت مالی بحران کی وجہ سے 13 جون 2018 کے بعد سے بند ہے۔ ادارہ “توار” نے اس دوران میں ہر ممکن کوشش کی ہے۔ کہ کسی نہ کسی طرح سے اخبار کی اشاعت ممکن بنائی جائے۔ اس سلسلے میں “توار” کے ایڈیٹوریل بورڈ کی مختلف اوقات میں باقاعدگی سے میٹنگیں ہوتی رہی ہیں۔ بحث و دلائل کے بعد ادارہ توار کے ایڈیٹوریل بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ بلوچ فرزندوں سے کمک کی اپیل کی جائے، تاکہ توار کی اشاعت ایک بار پھر سے ممکن بنائی جاسکے۔
“توار” بلوچی اور براہوئی زبانوں میں ایک ماہنامہ رسالہ کی صورت اکتوبر 1992 میں منظر عام پر آیا۔ جسے ادبی، سماجی و سیاسی حلقوں میں نہ صرف خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوئی، بلکہ ادارہ توار کو ہر ممکن مالی مدد بھی کی گئی۔ 1997 میں ایک بار “توار” مالی بحران کا شکار ہوا۔ اور ایک سال تک بند رہا، لیکن بلوچ فرزندوں نے ایک بار پھر ادارہ “توار” کی اس حد تک مالی کمک و مدد کی کہ توار کی نہ صرف اشاعت 1998 میں دوبارہ شروع ہوئی، بلکہ اپریل 2004 میں توار کو ماہنامہ کی بجائے روزنامہ کی شکل میں نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور روزنامہ توار 13 جون 2018 تک باقاعدگی سے اشاعت پزیر رہا۔
روزنامہ توار مستونگ وہ اشاعتی ادارہ ہے جس کو ہمیشہ سے بلوچ قوم کے فرزندوں کی کمک اور سرپرستی حاصل رہی ہے۔ یہ ادارہ اس طویل عرصے تک بلوچ قوم کے فرزندوں کے عملی کمک و مالی معاونت کی وجہ سے اس مسافت کو طے کرچکا ہے۔ اب ایک بار پھر روزنامہ توار کو مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس سلسلے میں اس ادارے کو بلوچ قوم کے فرزندوں کی مالی کمک و مدد کی ضرورت ہے۔ تاکہ “توار” کی اشاعت ایک بار پھر ممکن بنائی جاسکے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل ای میل ایڈریس پر ادارہ توار کے ذمہ داران سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب روزنامہ توار کے ادارتی بورڈ کے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر بی این ایم کے رہنما اور صحافی قاضی داد ریحان نے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہروزنامہ توار کے نام سے چندہ مہم چل رہا ہے، پہلے بھی اس طرح کے مہم چلائے گئے تھے اور مخصوص حلقے نے روزنامہ توار کی بھرپور مدد کی تھی، توار کی پالیسیاں اور لے آؤٹ سے مجھے ہمیشہ سے پریشانی رہی، ادارتی پالیسی مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی اور روزنامہ توار کے گوادر میں بیوروچیف کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے میرا نیوز ڈسک کے ساتھ چھتیس کا آنکڑا تھا، جو جوابا گوادر کے کورریج پر ظالمانہ قینچی چلا کر مجھے دندان شکن جواب دیتا تھا، توار میں بس ایک شہید جاوید نصیر تھے جو میرا جگری یار تھے اور گوادر بیورو آفس سے بھرپور کام نکالتے تھے ۔
توار نے ہماری کاپیاں بڑھانے کی درخواست پر بھی کبھی توجہ نہیں دی(گوادر اسٹیشن نے اپنی کاپیوں کی پرنٹ کے لیے پیشگی ادائیگی بھی کی جس کے بعد کاپیاں بڑھائی گئیں)، حالانکہ واحد اسٹیشن تھا جو بروقت ادائیگی کرتا تھا اور ہم اس خوش فہمی میں تھے کہ گوادر کی اہمیت کی وجہ سے بلوچ ادارے ہم پر خصوصی توجہ دیں گے مگر جس طرح قومی سیاست میں ہماری حالت تھی، صحافت میں بھی ہمیں حاشیہ میں رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ ۔ ۔ شاید ہمارے مزاج کی وجہ سے یہ سلوک روا رکھا گیا خیر۔
آج روزنامہ توار کے چندہ مہم اشتہار پر نظر پڑھی تو کچھ باتیں یاد آئیں، مگر آج کے لیے میرا سوال یہ ہے کہ کیا روزنامہ توار پھر سے بلوچستان سے شائع کیا جائے گا؟
اس کی پالیسیاں کیا ہوں گی؟
ایک پیشہ ور صحافتی اخبار ہوگا، یا نظریاتی پمفلٹ؟
اشتہارات شائع کرئے گا، یا ماضی کی طرح اپنی کاپیاں مفت میں بانٹے گا؟
روزنامہ توار جانبدار رہے گا یا سردارصاحب یا کسی دوسرے گروہ کی ترجمانی کرئے گا؟
اور سب سے اہم سوال روزنامہ توار کی اشاعت بلوچستان کے موجودہ حالات میں ممکن بھی ہے؟
اگر آنلائن چلانا ہے تو اس کے لیے خطیر رقم کی کیوں ضرورت ہے، جب کہ اس حوالے سے کئی نیوزوب سائٹس پہلے سے موجود ہیں اور بغیرچندے کے چل رہے ہیں ۔ جن میں ایک آنلائن ریڈیو بھی شامل ہے ۔چندہ دینے سے پہلے یہ سوالات ضرور پوچھیں۔
قاضی داد ریحان کے ان سوالات کے جواب میں روزنامہ توار کے ایڈیٹر خادم لہڑی نے کہا کہ
قاضی آپ کے سوالات بجا ہیں۔ گوادر بیورو کے حوالے سے آپ نے جو باتیں لکھی ہیں۔ اس وقت جو ذمہ داری تھی وہ تمام کے تمام شہید جاوید نصیر کے ہاتھ میں تھیں۔ جسے آپ نے جگری یار لکھا ہے۔ توار میں کام کرنے والے وہ تمام دوست اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے شہید جاوید نصیر کے کام میں کبھی مداخلت اس لئے نہیں کی کیونکہ نہ صرف وہ اپنے کام کو ایمانداری سے نبھایا کرتا تھا، بلکہ انتہائی مخلصی سے توار کے تمام کام کو سنبھال رہا تھا۔ اگر کوئی اونچ نیچ ہوئی ہے تو مجھے اس کا علم نہیں ہے۔ باقی رہے آپ کے سوالات ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اگر کہیں کچھ باتیں محسوس کرتا ہے تو وہ ضرور اس کا برملا اظہار کرے۔ آپ کے سوالات کے حوالے سے کچھ کہنا چاہونگا۔
پہلا ۔ توار کی 2004 سے لیکر 2011 تک پالیسی غیر جانبدار رہی ہے۔ آپ خود توار گوادر کے بیورو چیف رہے ہیں۔ ہاں البتہ بعد میں جو کچھ ہوا اس سے انکار نہیں۔ البتہ اب توار ایڈیٹوریل بورڈ کے کچھ عرصے سے چلنے والی میٹنگوں میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ توار کی پالیسیاں غیرجانبدارانہ رہیں گی۔ کیونکہ ادارے نے اس سلسلے میں کافی نقصانات اٹھائے۔
دو۔ توار ایک پیشہ ورانہ صحافتی اخبار ہوگا۔
تین ۔۔ اشتہارات کا جہاں تک تعلق ہے توار کو اشتہارات کا ملنا مشکل ہے۔ ماضی میں بھی اخبار کی کاپیاں مفت نہیں بانٹی گئیں ہیں۔ بلکہ توار کی قیمت کم رکھی گئی تھی۔ گوادر بیورو چیف کی حیثیت سے آپ نے خود بھی شہید جاوید نصیر کو پیسے بجھوائے تھے۔ جس کا اظہار آپ نے خود اپنے الفاظ میں ایڈوانس ادائیگی لکھ کر کی ہے۔
چار۔ روزنامہ توار ایک غیرجانبدار اخبار ہوگا۔
پانچ۔ توار نے قبل ازیں بھی مشکل حالات کا مقابلہ کرکے اپنی اشاعت بلوچستان سے جاری رکھی۔ اب بھی ہماری بھرپور کوشش ہے۔ کہ بلوچستان ہی سے اخبار کی اشاعت ممکن بنائی جائے۔ بہرحال حالات سے متعلق قبل از وقت کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
چھ۔ اخبار کی باقاعدہ اشاعت کو ممکن بنانے کی اپنی طرف سے بھرپور کوشش کرینگے۔ باقی حالات کی ڈور ہمارے بس میں نہیں دیکھتے ہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
توار کی ہمیشہ سے بلوچ فرزندوں نے بھرپور انداز میں کمک کی ہے۔ اب بھی ہم یہی امید رکھتے ہیں۔