دو مارچ بلوچ کلچر ڈے – ھیر بیار بلوچ

1250

دو مارچ بلوچ کلچر ڈے

تحریر: ھیر بیار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جیسے جیسے مارچ کا مہینہ قریب آرہا ہے، ویسے ویسے بلوچ نوجوانوں کے جوش و جذبے دیدہ ور ہوتے جارہے ہیں. جیسے دوسرے اقوام اپنی آزادی کے دن خوشیاں مناتے ہیں، ویسے ہی یہ غلام قوم 2 مارچ پہ خوشیاں مناتی ہے. بات کو تھوڑی باریک بینی سے اگر ہم دیکھیں تو ذہن میں ایک سوال ضرور اٹھے گا کہ ہمارے جو آباؤ اجداد تھے یا ہیں, وہ کیوں 2 مارچ کو کلچر ڈے نہیں مناتے تھے؟ سوال کا صحیح جواب کیا ہے، یہ مجھے تو نہیں پتہ البتہ ایک دوست نے کچھ اس طرح سے اسکا جواب دیا, ” ہمارے آباؤ اجداد “کلچر ” کے لفظ سے ناواقف تھے اس لیۓ وہ نہیں منایا کرتے تھے۔

میرے پاس اپنے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا، تو مجھے اپنے دوست کے بات سے متفق ہونا پڑا۔ اسکے علاوہ دو اور آسان سوال اپنے کلچر ڈے والے دوستوں کے لیۓ جن میں سے ایک کا جواب میں نے خود بھی دیا ہے۔ کلچر یا ثقافت دنیاوی زبان میں کسے کہتے ہیں؟ کن عناصر کے مرکب سے ثقافت بنتا ہے؟ دنیاوی زبان میں ثقافت کسی خاص قوم یا طبقے کے زندگی گذارنے کا طریقہ ہوتا ہے۔

ویسے کوئی مانے یا نہ مانے سوال تو بنتا ہے کہ کوئی قوم اپنے زندگی گذارنے کا دن کیسے اور کیونکر مناتا ہے؟ اگر وہ یہ دن ایک تہوار یا یاد دہانی کے طور پہ یا فخر کے طور پہ مناتی ہے تو مطلب وہ اپنے زندگی گذارنے کا طریقہ بھول چکی ہے؟ بہر حال اب یہ میں قارئین کے لیۓ چھوڑتا ہوں کہ وہ میرے سوالات کے جوابات کس طرح سے دیتے ہیں ہے یا نہیں دیتے؟

سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیاوی زبان میں یا لوگوں کے نظر میں کن خصوصیات کے بنیاد پہ ایک ثقافت تشکیل پاتی ہے. خصوصیات تو مختلف بتائی گئی ہیں، مختلف انسانوں کی جانب سے گوگل چاچا پر. لیکن جو پانچ خصوصیات مجھے مناسب لگے یا جنکو میں سمجھتا ہوں کہ یہ پانچ خصوصیات جس قوم یا قبیلے یا خاص طبقے میں ہو وہ اپنی ایک خاص ثقافتی پہچان رکھ سکتی ہیں (یہ میری زاتی رائے ہے) . پانچ خصوصیات درج ذیل ہیں.
1. تاریخ
2. رسم و رواج
3. فن
4. خط و کتابت
5. زبان
درج بالا وہ عناصر ہیں، جن کے مرکب کو کلچر کہا جاتا ہے۔

لیکن آج کی نوجوان نسل پگڑی, بڑے شلوار و بلوچی دوچ, مری یا بگٹی جوتے اور بڑے مونچھ کو بلوچ کلچر سمجھتے اور دوسرے اقوام کو سمجھاتے ہیں. مانتا ہوں یہ کلچر کا حصہ ہے یا ہونگے لیکن اگر کلچر کا ایک بھی عنصر آپ چھوڑو تو باقی سب بے کار ہوتے ہیں. کپڑے یا جوتے یا پگڑی، تو ہر کوئی پہن سکتا ہے لیکن یہ پہننے اور ضرورت کی بنیاد پہ استعمال ہونے والی چیزیں کسی کو بلوچ بنانے کے ضامن نہیں ہوتے۔

دو ہی مہینوں کی بات ہے کہ میرے ایک سرائیکی دوست نے پنجاب سے پیغام بھیجا کہ “بلوچاں مجھے اور میرے بھائی کو بلوچی کپڑے, جوتے اور ٹوپی چاہیئے آپ ہمارے لیۓ کچھ کرو.”

خیر میں کپڑے تو نہیں سلوا سکا لیکن جوتے اور ٹوپی بھیج دیئے انکو. اسنے اپنے بھائی کے ساتھ ایک تصویر بھیجا مجھے جس میں انہوں نے مری بر جوتے اور شیشہ والی ٹوپی پہنے ہوۓ تھے (جو میں نے بھیجے تھے) اور ساتھ میں لکھا تھا “کیسے ہم بلوچ لگ رہے ہیں؟ میں نے دل ہی دل میں کہا بلوچ لگ سکتے ہو لیکن بلوچ بننے کے لیۓ یہ چیز کافی نہیں ہیں۔
.
بلوچ بننے کہ لیۓ آپ کو بلوچ کی تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا. آپ کو پڑھنا ہوگا کہ بلوچ کیوں بلوچ کہلوایا؟ بلوچوں کی تاریخ کے سنہرے اور اندھیرے باب کونسے ہیں؟ کیونکہ آپ کو جب تک کسی قوم کی تاریخ کا پتہ نہیں ہو، تب تک آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلانا قوم کب اور کیسے معرض وجود میں آیا اور اسکی ثقافت کی تشکیل کیسے ہوئی ہے۔

اسکے علاوہ ضروری ہے کہ آپ کو پتا ہونا چاہیئے بلوچوں کی مادری زبانیں کونسے ہیں؟ وہ بولی کیسے جاتی ہیں؟ انکی بولیاں کونسی ہیں جسکی بنیاد پہ وہ خود کو بلوچ کہتے پھرتے ہیں؟

بقول بلوچ دانشور ڈاکٹر منظور بلوچ, “ثقافت ایک چھوٹی لیکن بہت ہی وسیع لفظ ہے. اسکے احاطے اور تمام پہلوؤں تک ہم کبھی بھی پہنچ نہیں سکتے لیکن ثقافت کو جو چیز دروشم یعنی شکل و صورت اور ڈھانچہ مہیا کرتا ہے وہ زبان ہے. ”

یعنی اگر آپ کی گرفت آپ کے اپنے مادری زبان پہ نہیں تو آپ کی کوئی ثقافت بن ہی نہیں سکتی۔

پھر آتا ہے باری آپ کو بلوچ قوم کی علم و فن کے بارے میں کیا علم ہیں؟ کیا آپ کو پتا ہے بلوچ لکھتے کیسے ہیں؟ انکے انداز و لوازمات کیا ہیں؟ خط و کتابت کے حوالے سے بلوچوں کی تاریخ کیا کہتا ہیں؟ کیا آپ ذہنی و فکری حوالے سے بلوچوں کے فن, خط و کتابت سے مطمئن ہو؟

سب سے آخر میں جو سب سے ضروری عنصر ہے وہ ہے کسی بھی قوم یا طبقے کی رسم و رواج (یعنی خصوصیات) اگر آپ کسی قوم کے رسم و رواجات سے واقف ہو اور ان کو اپنے اندر سماء سکتے ہو اس قوم کا باشندہ بننے سے کوئی آپ کو روک نہیں سکتا ہے۔

آتے ہیں اب بلوچ نوجوانوں اور بلوچ قوم کے رسوم و رواج کی طرف. بلوچ قوم میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کا حامل سمجھاتا ہے وہ ہے عورت کا دوپٹہ اور مرد کی دستار، جن کو اتار کے کسی کے سامنے رکھنے سے صدیوں کے رنجشیں لمحوں میں ختم ہو جاتے ہیں. سخت سے سخت ترین دشمن بھی شیر و شکر ہوتے ہیں، وہ الگ بات ہے بلوچ نوجوانوں نے صرف زیب و زینت کی حد تک محدود کی ہوئی ہے، ان دونوں قیمتی سرمائے کو۔

اسکے علاوہ بلوچ قوم کی دود ربیدگ کی بہترین چیز ظلم کے خلاف جنگ ہے. ظالم کے خلاف سیسا پلائی دیوار بننا ہے. اس ایک پائیدار خصوصیت کی وجہ سے بلوچ قوم کو ساری دنیا بہادر اور زندہ قوم کے نام سے جانتی اور مانتی ہے. لیکن اگر آجکل کے بلوچ نوجوان کو ہم دیکھیں تو کچھ گنے چنے وطن پرست, ذہنی طور پر پختہ, باشعور جنگجووں کے علاوہ ساری بلوچ قوم آزادی و آسودگی کے لیۓ دشمن کے سامنے سیسا پلائی دیوار بنے ہوۓ ہیں. جنکی جدوجہد, ہمت, بہادری اور شجاعت کی وجہ سے دشمن اب تک بلوچستان پہ اپنے قدم نہیں جما سکا ہے، باقی سب نوجوان تو بت اور بت کدے بن گئے ہیں. وہ نوجوان جنکی آنکھوں میں بہتی آگ اور خون کے دریا کو شعراء حضرات اپنے اشعار کی زینت بناتے ہیں، وہ تو شاید سفید ہوگئی ہے یا بلکل خشک ہوگئی ہے وادی ء خیصار و ہنہ اوڑک کی طرح۔

براہوی زبان میں کسی شاعر کا شعر ہے
اے کہ دیوانہ جہاں پاہک تا, ہمو سار بشخیرہ کل اے
اے کہ شنزاہتیٹ شپاد کارا, گل و گلزار بشخیرہ کل اے

آج پورا بلوچستان ظلم کی بے انتہا ظلم کی لہر میں لپٹی ہوئی ہے، لیکن مجال ہے کہ کوئی کلچر ڈے والا نوجوان اپنے بلوچ دود ربیدگ کی پاسداری کرتے ہوۓ ظلم کے خلاف کھڑا ہو اور ظالم کے خلاف آواز بلند کرے۔

ان نادان نوجوانوں کی مثال انکی سی ہے جو اپنے گھر میں لگے آگ پہ پانی کی بجاۓ تیل چھڑکتے ہیں، ڈر اور وقتی انعامات و کرامات پانے کی خاطر. آج بلوچ قوم کی بہنیں اور مائیں جو بلوچ قوم کی ننگ و ناموس کی پیکر سمجھے جاتے ہیں سردی گرمی کی پرواہ کیۓ بغیر اپنے بیٹوں اور بھائیوں کی ظالم سے چھٹکارے کے لیۓ جہد مسلسل کر رہی ہیں. اندھی بہری اور فسادی دنیا کی نظر میں گم ہوگئے ہیں۔ جو کام اس قوم کے بہادر ورناوں کو کرنا تھا، وہ کر رہے ہیں کیونکہ سب کو پتا ہے کچھ کے علاوہ باقی سارے نوجوان ظالم کے ڈر میں جکڑے ہوۓ ہیں. انکی ننگ و ناموس اور بلوچی کلچر صرف ایک دن کے لیۓ کچھ بڑے شلواروں, بڑے مونچھوں, چادر اور جوتوں تک محدود ہوگئی ہے اور ایک شو پیس کی شکل اختیار کرگئی ہے۔

میرے قوم کے ان پڑھے لکھے نادان بچوں کا کوئی تو رہنمائی کرے، کوئی تو انہیں حق, سچ, جدوجہد اور آزادی کا رستہ دکھاۓ . کوئی تو انکی کھلی آنکھوں پہ بندھے ڈر کے کالے کپڑے کو اتارے. کوئی تو روشنیوں کا پتہ دے. کوئی تو انھیں نظر کے دھوکے سے باہر نکالے.کوئی تو انھیں حقیقت پسند اور فرض شناس بناۓ. کوئی تو انکو پڑھے لکھے جاہل ہونے سے بچاۓ, کوئی تو انھیں مزاق بننے اور بلوچ ثقافت کا مزاق اڑانے سے بچاۓ. کوئی تو انھیں بتائے کہ کلچر کسی ایک خاص دن پہ منایا نہیں جاتا. یہ ایک دن کےلیۓ نہیں ہوتی ہے. یہ تو زندگی گذارنے کا طریقہ ہوتا ہے. یہ زندگی بھر آپ کی زندگی میں ہونی چاہیۓ، ورنا آپ خود کو بلوچ کہنے اور کہلوانے کا بالکل بھی حقدار نہیں ہو. یہ منانے کے لیۓ نہیں بلکہ اپنانے کے لیۓ ہے. یہ زندہ رکھنے, زندہ رہنے اور زندہ ہونے کے لیۓ ہے.

زندگی کے سارے فلسفے کا دارو مدار اسی پہ ہوتا ہے. آپ کی نام اور پہچان کسی کام کے نہیں، اگر آپ اپنے نام اور پہچان کو صرف شوبازی, رعب جمانے, فخر اور شو پیس کے طور پہ استعمال کرتے ہو. اگر آپ کے عمل سے آپ کے ثقافت کا پتہ نہیں ملتا تو یہ آپ کے لیۓ ڈوب مرنے کا مقام ہونا چاہیۓ۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔