بلوچ و عرب اور پاکستان – وش دل زہری

375

بلوچ و عرب اور پاکستان

وش دل زہری

دی بلوچستان پوسٹ

اس بات کا پوری دنیا کو بخوبی اندازہ ہے کہ پاکستان اپنے بربریت، قبضہ گیر عزائم اور جبری سرگرمیوں میں دنیا کے تمام دہشت گرد ملکوں کے فہرست میں بدترین لائن میں شمار ہوتا ہے، پاکستان میں ہر دوسرے شخص کو کسی دوسرے ملک کا ایجنٹ قرار دے کر موت کے منہ میں دھکیلا جاتا ہے، اور یہاں عام عوام کو غیر ملکی جاسوس و مجرم بناکر مارا جاتا ہے اور انصاف کے تقاضوں پر دن رات صَرف کرنے والے ادارے محض تماشائی بن کر چند وقت کیلئے اپنا دھیان اس بنا پر اس جانب کرتے ہیں کہ آقا کو سفید پردے میں چھپانے کیلئے کوئی دلیل یا تاویلات بنانے کا موقع حاصل ہو.

اسی طرح پاکستان کا اقتصادی و عسکری شریک چین کا بھی موجودہ دور دنیا کے سامنے عیاں ہے کہ چین کے اندر انسانیت اور مذاہب کے عقیدت مندوں کو کس قدر بندوقوں کے نوک پر رکھا گیا ہے، دنیا میں بلوچوں کے گوادر، سیندک اور ریکوڈک جیسے قدرتی وسائل دنیا جہاں میں کہیں بھی موجود ہیں، وہاں چین اور استحصالی کمپنیاں اپنے جبری پنجے گاڑھ چکے ہیں. چین نے پاکستان کے ساتھ ایک منصوبے کے تحت اپنا پروگرام باقاعد اس بات پر طے کرلیا ہے کہ ہمارا مفاد بلوچ سرزمین پر جہاں کہیں بھی ہوگا ہم وہاں دنیا کو خوشحالی کا جھوٹا جھنڈا دکھا کر فرصت و آرام سے لوٹ کھسوٹ کا ماحول گرم کر لیں گے، جو بھی صدائیں اُٹھیں گی اُنہیں ہر صورت خاموش کرنا ہوگا۔

اگر پاکستان اور چین کے بیچ تیسرا فریق اپنا حصہ بھی یہی امر جانتے ہوئے ڈالتا ہیکہ مظلوموں کو کچل کر ترقی کا بین بجانا ہے تو شاید وہ اپنے تہذیب کا سب سے بڑا دشمن ہے، جو اپنے تاریخ سے منہ موڑ کر دنیا کے نئی استحصالی منصوبوں کا حصہ بننے جا رہا ہے.

عرب اور بلوچ کے تعلقات، بھائی چارگی اور ایک دوسرے کے کے شانہ بشانہ ہوکر کھڑے ہونے کی تاریخی مثالیں ملتی ہیں۔ بلوچ اور عرب کا تعلق قبل ایک صدی سے نہیں بلکہ یہ تعلق صدیوں سے مہذب انداز میں ہر وقت رہا ہے، جس میں سلطنت عُمان ہو یا دوسرے عرب ممالک وہاں پر موجود وہاں کا شہریت حاصل کرنے والا بلوچ شہری اس تعلقات کا ایک واضح ثبوت ہے.

عمان سلالہ میں موجود تختی نما پتھروں پر بلوچ اور عرب کی تاریخ آج بھی موجود ہے، جب بھی عربوں پر سختی کے دن آن پڑا ہے تو بلوچ اس کے کاندھے سے کاندھا ملاکر ہمیشہ ساتھ کھڑا رہا ہے.

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں موجودہ عرب ممالک میں آپسی انتشار اور یمن جنگ آج کل کے اخباروں کے سرفہرست میں سرخیوں میں شامل نظر آرہے ہیں، اسی جنک میں متحدہ عرب امارت کی فوج میں وہاں کے وطنی بلوچ اس عزم کے ساتھ شانہ بشانہ رہے ہیں کہ ماضی کے تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جائے.
اسی لڑائی میں چھ بلوچ فوجی اپنے دستے میں شامل چالیس کے قریب لگ بھگ عرب فوجیوں کے ساتھ یمنیوں کے ہاتھوں شہید ہوئیں، بلوچ اور عرب کے تعلقات کا تذکرہ آج بھی عرب اور بلوچوں کے بزرگوں کے دیوان کا بڑے فخر سے حصہ بنتے ہیں کہ جب جب عرب پر مصیبت کے دن آئے بلوچوں نے اُن کے سخت وقت کو اپنا ہی سمجھ کر اُٹھ کھڑے ہوئے.

آج عرب ممالک میں بلوچ ایک ستر سالہ ریاست پاکستان کے کہنے پر غیر محفوظ قرار پایا ہے، راشد حسین بلوچ ایک دو مہینے سے دنیا کے بہترین ماڈل ، گلوبل، خوبصورت ملک، جسے امن اور مساوات کا ایک مثال مانا جاتا ہے متحدہ عرب امارت UAE سے لاپتہ ہے.

متحدہ عرب امارت محض پاکستان اور چین کے کہنے پر بلوچوں کیلئے اپنا سرزمین ممنوعہ قرار دینے پر آن پہنچا ہے، اس سے عرب امارت کے آئین و قانون اور بلوچ و عرب تعلقات میں ایک الگ سی کیفیت پیدا ہوگئی، جس سے صدیوں سے محیط عرب اور بلوچ کے مضبوط اور پُختہ تعلقات پاکستان اور چین کے مفاد کا بھینٹ چڑھا دیا جائے گا اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

راشد حسین بلوچ کو موجودہ وقت کے بلوچ سیاسی پارٹی بی این ایم سے متعلق ایک روشن خیال کارکُن سمجھا جاتا ہے جبکہ بی این ایم اس وقت بلوچوں کے حق و حقوق اور بلوچستان میں جبری گم شدگیوں کے خلاف دنیا بھر میں صدائیں بُلند کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم کی قومی آزادی اور بلوچ قوم کا اپنے سرزمین پر حاکمیت کا مطالبہ کرتا آیا ہے اور کر رہا ہے. بلوچستان میں اپنے اظہار رائے سے محروم اور جبر و تشدد کے بازار سے کنارہ کرکے پُرامن طریقہ اپنا کر عرب ملک کا رخ کرکے راشد حسین نے خود کو اس بنا پر یہاں کا باشندہ تصور کیا کہ بلوچ اور عرب کا تعلق شاید ہمارے لئے پناہ گاہ ثابت ہوں اور دنیا کا گلوبل پیس کے اعزاز کا حق دار UAEکسی کے آزادی کو پاکستان جیسے غیر فطری اور نومولود ریاست کے کہنے پر سلب نہیں کرےگا.

لیکن راشد حسین کا اس طرح لاپتہ ہونا متحدہ عرب امارت جیسے مہذب ملک کیلئے کئی سوالات جنم دیتے ہیں، دنیا بھر سے وہاں سیر و تفریح کیلئے آنے والے مختلف شہریت کے لوگ متحدہ عرب امارت کے موجودہ امیج کو بدل دیں گے اور اس کے علاوہ بلوچ اور عرب کے تعلقات میں ایک لا اعتمادی کی سی کیفیت پیدا ہوگی.

ہمارا متحدہ عرب امارت اور تمام عرب ممالک سے یہی التماس ہیکہ صدیوں کا بنا مضبوط تعلق ستر سالہ نومولود ریاست کے مفاد کا نذر نہ کریں، یہی بلوچ اور عرب کے تعلقات کو مزید مضبوطی کی طرف لے جانے کا عندیہ ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔