بلوچستان یونیورسٹی شعبہ بلوچی کا ایرانی یونیورسٹی کے ساتھ معاہدہ

252

جامعہ بلوچستان شعبہ بلوچی کے چیئرمین حامدبلوچ کاکہناہے کہ مادری زبانوں کی اہمیت سے انکارکسی صورت ممکن نہیں ،زبان دنیا میں بسنے والے لوگوں کی شناخت ، تعلیم وصحت اورثقافت سمیت دیگر معاملات میں رابطے کااہم ذریعہ ہے،بلوچستان میں بولی جانے والی بلو چی،براہوئی ،سندھی اورپشتو سمیت دیگرزبانوں کی ترویج کیلئے سرکاری سطح پرمنصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

ان خیالات کااظہارانہوں نے مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پرخصوصی گفتگوکرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ دنیامیں جغرافیائی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کی بڑی زبانوں کوخطرہ ہوسکتاہے،تاہم بلوچی زبان کی ترقی کیلئے مزیدکام کرناہوگا ۔

اس ضمن میں جامعہ بلوچستان کے شعبہ بلوچی نے ایران میں سیستان وبلوچستان یونیورسٹی کے ساتھ معاہدہ طے کیاہے جس کے تحت امسال مارچ کے مہینے میں وہاں شعبہ بلوچی کاافتتاح کیاجائے گا،سراوان یونیورسٹی میں بلوچی زبان کاشعبہ کام کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مادری زبانوں کی اہمیت کواجاگرکرنے کیلئے حکومتی سطح پراقدامات ناگزیرہیں۔

1999ء میںیونیسکو کے سالانہ اجلاس کے دوران مادری زبانوں کاعالمی دن منانے کااعلان کیاگیا،سن2000ء سے ہرسال دنیابھرمیں21فروری کومادری زبانوں کاعالمی دن منایاجاتاہے ،اس دن کومنانے کامقصددنیا میں بولی جانے والی زبانوں کی اہمیت کواجاگر کرکے ان کی ترقی کیلئے لائحہ عمل طے کرنا ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو مختلف زبانوں سے روشناس کرایاجاسکے۔

حامدبلوچ کامزیدکہناتھاکہ سندھ میں 60فیصد بلوچی بولنے والے لوگوں نے اپنی زبان میں بات کرناچھوڑدیا جبکہ صرف 40فیصدلوگ اس اپنی زبان میں کام کررہے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ پنجاب میں بھی 1کروڑکے لگ بھگ بلوچ لوگ آبادہیں ۔

حکومتی سطح پراقدامات کے فقدان کے باعث براہوئی زبان اس وقت معدوم ہورہی ہے اس کیلئے ہنگامی سطح پراقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھرمیں حکومتی سطح پر مقامی زبانوں کی ترویج کیلئے اقدامات اٹھایاگیا۔

سویڈن میں 1929میں زبان کی ترقی کیلئے تمام ماہرین اوردانشوروں کواکھٹاکرکے حکومت نے منصوبہ بندی کی، یونان میں نارویجن زبان کی ترقی کیلئے 1926جبکہ جرمنی میں سرکاری سطح پرمقامی زبانوں کوآگے لانے کیلئے انیسویں صدی میں بہترطریقے سے منصوبہ بندی کی گئی جس سے ان کی زبانیں بہترمقام تک پہنچ چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بلوچی اوربراہوئی زبان میں پرائمری تک تعلیم کاسلسلہ شروع کردیا گیا ہے اس میں مزیدبہتری لانے کی ضرورت ہے،اساتذہ کو مقامی زبانوں میں تربیت دی جائے اوربچوں کیلئے آسان الفاظ میں کہانیاں بھی مضامین میں شامل کئے جائیں۔

تاہم بلوچی میں ایک خاص رسم الخط دینے کیلئے حکومتی سطح پرمنصوبہ بندی کی ضرورت ہے اس ضمن میں تمام زبانوں میں اکیڈمیاں اپنی بساط کے تحت کام کررہے ہیں حکومتی سطح پرمنصوبہ بندی کرکے زبانوں کاتحفظ ممکن بنایاجاسکتا ہے۔