گذشتہ برس تین اعشاریہ پانچ فی صد افراد خط غربت سے نیچے بتائے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی ماہانہ آمدن 280 ڈالر سے زیادہ نہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کی اجرت میں ایک اعشاریہ چھ فی صد کا اضافہ کیا گیا جب کہ ماہانہ آمدن میں 120 ڈالر کا اضافہ ناگزیر تھا۔
دی بلوچستان پوسٹ ویب ڈیسک کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق آئندہ ہفتے ایرانی حکومت مزدور کی کم سے کم اجرت کا اعلان کرنے جا رہی ہے۔
اقتصادی ماہرین اور مزدور طبقے کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا خیال ہے کہ حکومت کی طرف سے مزدوروں کی کم سے کم اجرت میں اضافہ نہ کیا گیا تو ان کی مالی اور معاشی مشکلات کا حل ممکن نہیں ہوگا۔ حکومت کو ہرصورت میں محنت کشوں کی قوت خرید کے پیمانے کو تبدیل کرنا ہوگا۔
ایرانی تجزیہ نگار اور اقتصادی امور کے ماہر فریبرز دانا کا کہنا ہے کہ سال 2018ء کے دوران کم سے کم اجرت نا مناسب اور مزدوروں کی ضروریات کے لیے کافی نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ برس تین اعشاریہ پانچ فی صد افراد خط غربت سے نیچے بتائے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی ماہانہ آمدن 280 ڈالر سے زیادہ نہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کی اجرت میں ایک اعشاریہ چھ فی صد کا اضافہ کیا گیا جب کہ ماہانہ آمدن میں 120 ڈالر کا اضافہ ناگزیر تھا۔
ایک سوال کے جواب میں ایرانی تجزیہ نگار نے کہا کہ 2018ء کےدوران مہنگائی میں اضافے کے نتیجے میں افراط زر میں 30 سے 40 فی صد اضافہ ہوا۔ ہمارے اندازے کے مطابق حکومت کو چاہیے تھاکہ وہ مزدور کی کم سے کم اجرت 234 ڈالر ماہانہ مقرر کرے تاکہ وہ افراط زر کا آسانی کے ساتھ مقابلہ کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ ایران میں مزدور طبقے میں غربت میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی قوت خرید کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت قریبا 70 فی صد مزدور جن کی تعداد ایک کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ ہے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکررہےہیں۔ ان کی ماہانہ آمدن 334 ڈالر ماہانہ کے بجائے 280 ڈالر ہے۔
واضح رہے کہ آٹھ مئی 2018ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ طے پائے جوہری معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا گیا اور ساتھ ہی امریکا نے تہران پر سابقہ اقتصادی پابندیاں بحال کرنا شروع کردیں۔ امریکی حکومت نے اعلان کیا کہ وہ ایران پر سخت ترین اقتصادی پابندیاں عائد کرے گا تاکہ اسے اس کے متنازع جوہری پروگرام کے تسلسل کی سزا دی جاسکے۔
امریکی پابندیوں کے نتیجے میں مال برداری ، تیل اور توانائی کے شعبے بری طرح متاثر ہوئے اور ان پابندیوں کا براہ راست منفی اثر ایرانی عوام پر پڑا۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہےکہ 100 عالمی کمپنیاں امریکی پابندیوںکی وجہ سے ایران سے جا چکی ہیں جب کہ ایران کی تیل پیداوار میں یومیہ ایک ملین بیرل کی کمی آچکی ہے۔