امریکی انخلا کے بعد بھی افغانستان میں انسداد دہشت گردی کا کام جاری رہے گا – ٹرمپ

129

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ سیاسی تفریق اور پارٹی سوچ سے بالا تر ہوکر، اتحاد اور تعاون کی بنیاد پر ملکی مفاد میں قانون سازی کی جائے اور ملک کی ترقی کو مزید تیز تر کیا جائے۔

منگل کی رات ‘اسٹیٹ آف دی یونین’ کے براہِ راست خطاب میں اُنھوں نے کہا کہ ملک کو ایک بحرانی صورت حال درپیش ہے، جس سے نبرد آزما ہونے کی فوری ضرورت ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ملک کو ضابطوں کے خلاف اور غیر قانونی امیگریشن سے نجات دلائی جائے، اور اس کے لیے موثر قانون سازی کی جائے۔صدر نے ڈیموکریٹ پارٹی سے اپیل کی کہ وہ اس ضمن میں اُن کی انتظامیہ کی مدد کرے۔

اُنھوں نے معاشی ترقی کا خصوصی طور پر ذکر کیا اور کہا کہ بے روزگاری کے اعداد کم ترین سطح پر ہیں، جب کہ شرح نمو خاصی بہتر ہے۔ ساتھ ہی، اُن کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ لڑائی سے اجتناب کیا جائے اور اپنے قیمتی وسائل ملکی ترقی پر خرچ کیے جائیں۔

صدر نے کہا کہ ہمارا ایجنڈا یہ ہے کہ یہ کسی ایک جماعت کی حکومت نہ ہو، بلکہ سب مل کر امریکی عوام کے مفاد کے لیے کام کریں۔

اُنھوں نے کہا کہ عراق اور شام میں داعش کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ آج اس وحشی دہشت گرد گروہ سے تقریباً تمام علاقہ واگزار کرا لیا گیا ہے۔

ٹرمپ نے اعلان کیا کہ فروری کی 27 اور 28 کو وہ شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان سے ویتنام میں ملاقات کریں گے۔ صدر نے کہا کہ پچھلے 15 ماہ کے دوران، شمالی کوریا نے کوئی میزائل تجربہ نہیں کیا۔ ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ اُن کے کم جونگ ان کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، جس کا امریکہ کو فائدہ ہوگا۔

ایران کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ ایک سرکردہ مطلق العنان، قدامت پسند اور دہشت گرد ملک ہے، جو ‘مرگ بر امریکہ’ کے نعرے لگاتا ہے اور یہودی عوام کی نسل کشی کی باتیں کرتا ہے۔۔ جو قابل برداشت بات نہیں۔

صدر نے کہا کہ اُنھوں نے گذشتہ سال نہ صرف ایران کے ساتھ کیے گئے غلط بین الاقوامی جوہری معاہدے سے امریکہ کو الگ کیا، بلکہ ایران کے خلاف سخت ترین تعزیرات عائد کیں۔

افغانستان کے بارے میں صدر نے کہا کہ دو عشروں کی لڑائی کے بعد وقت آگیا ہے کہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے، جس کے لیے طالبان سے بات چیت جاری ہے، جو بھی مذاکرات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی اُنھوں نے کہا کہ امریکی انخلا کے بعد بھی افغانستان میں انسداد دہشت گردی کا کام جاری رہے گا۔

‘انٹرمیڈئیٹ نیوکلیئر میزائل’ (آئی این ایف) معاہدے کے حوالے سے، ٹرمپ نے کہا کہ تاریخی طور پر امریکہ اس کی پاسداری کرتا رہا ہے جب کہ روس شروع ہی سے من مانی کرتا آیا ہے، جس بنا پر امریکہ نے معاہدے سے علیحدہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔

تجارتی سمجھوتوں کے بارے میں ٹرمپ نے کہا کہ چین کے ساتھ نیا معاہدہ طے کیا جائے گا، جس سے امریکی روزگار کے مواقع ملک واپس آئیں گے، جب کہ امریکی ‘انٹیلکچوئل پراپرٹی رائٹس’ کا مناسب دفاع ممکن ہو سکے گا۔

ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ موثر ‘ڈفینس میزائل سسٹمز’ تیار کر رہا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ امریکی سیکورٹی اور دفاع کو مضبوط تر بنایا جا رہا ہے، ملکی دفاعی مد میں گذشتہ سال 700 ارب ڈالر جب کہ اس سال 716 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ ادھر، نیٹو اتحادی ملکوں کی جانب سے دفاعی اتحاد کے لیے 100 ارب ڈالر دیے گئے ہیں، جو رکن ملکوں کا واجب الادا حصہ تھا، جس سے نیٹو کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔

ملکی سیاست کے بارے میں، اُنھوں نے پھر کہا کہ عناد، نااتفاقی اور دوری کا رویہ ختم کرکے، اتحاد اور تعاون کا راستہ اپنایا جائے، اور ملکی مفاد کے لیے مل کر کام کیا جائے۔

ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے اسٹیسی ابرامز نے صدر کےخطاب کا جواب دیا۔ وہ سیاہ فام امریکی ہیں جنھوں نے نومبر میں جارجیا کے گورنر کا انتخاب لڑا تھا۔

اس سے قبل کانگریس کے ایوان میں آمد کے موقعے پر اسپیکر نینسی پیلوسی نے صدر کو خوش آمدید کہا۔

اسٹیٹ آف دی یونین وہ خطاب ہے جو امریکہ کے صدر عموماً ہر سال کانگریس کے دونوں ایوانوں– سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان –کے مشترکہ اجلاس سے کرتے ہیں۔

رواں سال صدر کو یہ خطاب 29 جنوری کو کرنا تھا۔ لیکن، امریکی حکومت کے جزوی شٹ ڈاؤن اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر سے متعلق جاری اختلافات کے باعث ایوانِ نمائندگان کی ڈیموکریٹ اسپیکر نینسی پیلوسی نے صدر کو ایوان سے خطاب کی دی گئی دعوت واپس لے لی تھی۔

امریکہ کی معلوم تاریخ میں ایوانِ نمائندگان کے اسپیکر کی جانب سے کسی صدر کو ‘اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کی دعوت واپس لینے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ اسٹیٹ آف دی یونین خطاب کی حیثیت علامتی ہے جسے امریکی صدور اپنے دور کی کامیابیاں گنوانے اور کانگریس اور قوم کو اپنی ترجیحات باور کرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

اس وقت535 کےایوان نمائندگان میں، جس میں سینیٹ کے 100 ارکان شامل ہیں، ریکارڈ 102 منتخب خواتین ارکان کانگریس ہیں، جن میں سے 36 خواتین قانون ساز پچھلے سال نومبر میں منتخب ہوئی ہیں۔