اماں یاسمین اور سیماء بہن
تحریر: بدل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
عورت دنیا میں کبھی مردوں سے پیچھے نہیں ٹہرا لیکن اب بھی ہمارے لاعلم، بے شعور معاشروں میں عورتوں کو ناتواں، کم ہمت اور مردوں کے مقابلے میں کم فہم سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو کئی ایسے نام سامنے آئینگے، جو عورت سے متعلق اس سوچ کی نفی ہی نہیں کرتیں بلکہ ان کے عزم، ارادے کی پختگی، ہمت اور حوصلہ دنیا بھر کی عورتوں کیلئے مثال ہے۔
ہیریئٹ ٹبمین نامی عورت جو دور غلامی میں مال و زر اور طاقت کے اختیار کے نشے میں اپنے ہی جیسے انسانوں پر ظلم ڈھانے اور ان سے بدترین سلوک روا رکھنے کے خلاف ڈٹ گئیں. ہیریئٹ ٹبمین نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ بھی آزادی کے زائقے سے نہ آشنا تھا، لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کے اس ہی خاندان کی ایک لڑکی غلامی کے خلاف اعلان بغاوت کرے گی اور دنیا اسے ایک باہمت انسان دوست عورت کے طور پر صدیوں تک یاد رکھے گی۔
ہیریئٹ ٹبمین انسانی حقوق کے سر گرم کارکن کے طور پر دنیا بھر میں پہچانی جاتی ہے، وہ امریکہ میں خانہ جنگی کے دور میں اہم خدامات انجام دینے کے بعد عورتوں کے حقوق کی جنگ لڑنے کیلئے میدان عمل میں نظر آئیں، ان کا ایک اہم کارنامہ غلاموں کو آزاد زندگی گذارنے پر آمادہ کرنا اور ظلم اور جبر کے شکنجے سے نکالنے میں مدد دینا تھا۔
ٹبمین کی کوششوں سے کئی غلام زیر زمین ریلوے نظام کے ذریعے فرار ہوکر امریکہ کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے اور آزاد زندگی بسر کرنے لگے۔
ٹبمین کا سن پیدائش 1822 اور آباواجداد کا تعلق افریقہ سے تھا، تاریخ بتاتی ہے کے انکی نانی غلام بنا کر امریکہ لائی گئی تھیں اور اسی سرزمین پر انکا خاندان پروان چڑھا. ہیرینٹ ٹبمین کے نو بھائی بہنوں میں سے تین بہنوں کو بچپن ہی میں فروخت کر دیا گیا تھا، جبکہ ٹبمین بھی غلامی کا جبر مظالم برداشت کرتے ہوئے عمر کی منزلیں طے کرتی رہیں. انہوں نے سوسن نامی ایک خاتون کے یہاں آیا کے طور پر کام شروع کیا، جو ایک ظالم عورت تھی. اسی گھر میں نوجوان ٹبمین نے معمولی غلطی یا سستی کوتاہی پر کوڑے بھی برداشت کیئے۔
1844 میں ٹبمین نے ایک سیاہ فام سے شادی کرلی، جسے اس کے مالک نے آزاد کردیا تھا۔.
1849 میں ٹبمین کے دادا کا انتقال ہو گیا، جس کے بعد زیادہ امکان یہی تھا کہ اسے کسی اور کے غلامی میں دے دیا جائے گا، تب وہ وہاں سے اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ فرار ہوگئیں لیکن بعد میں بھائیوں نے واپسی کا فیصلہ کیا اور ٹبمین بھی اس پر مجبور ہوگئیں تا ہم پھر جلدی انہوں نے فرار کی راہ اختیار کی، اس بار وہ تنہا تھی اور زیر زمین ریلوے کا راستہ اختیار کیا، اس دور میں بعض لوگوں کا کمائی کا ایک ذرائع فرار ہونے والے غلاموں کو پکڑ کر ان کو آقاؤں تک پہنچانا بھی تھا، اس لیئے ٹبمین بہیت احتیاط برت رہی تھی، کئی ہفتوں بعد سفر کی بعد وہ پینسلوانیا پہنچیں اور فلا ڈیلفیا کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔
مگر اسی عرصے میں یہ سنا کے سرکار نے ایک قانون کی منظوری دی ہے، جس کے تحت غلاموں کو فرار ہونے میں مدد دینے والوں کو سخت سزا دی جائے گی، ٹبمین اس کے باوجود ہمت نہ ہارنے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی انہوں نے خطرہ مول لیا اور متعدد بار میری لینڑ گئی اور اپنے خاندان کے کئی لوگوں کو فرار ہونے میں مدد دی۔
خانہ جنگی ختم ہوئی تو ٹبمین نے اپنے خاندان اور غلاموں کی دیکھ بھال کرنے لگیں، ٹبمین نے اپنے حالاتِ زندگی تحریر کی ہے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورتوں کی حقوق کے جدوجہد میں پیش پیش رہی ہیں، ٹبمین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک بہترین قصہ گوتھیں اور تقریر کا فن بھی جانتی تھیں، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عورتوں کو اپنے طرف متوجہ کر لیا اور ٹبمین کے خیالات و نظریات سے متاثر ہوئیں، انہوں نے مختلف مہمات کے ذریعے عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے کا درس دیا، اور کہا کے وہ کسی طرح مردوں سے کم تر نہیں ہیں، ٹبمین نے عورتوں میں شعور بیدار کیا اور کہا کہ ان کو اپنے حقوق کے حصول کے لئے لڑنا ہوگا، ٹبمین کی اس ہم فکر نظریات نے انہیں ایک عظیم رہنما اور با ہمت خاتون کے طور پر شہرت دی۔
جس طرح کے اماں یاسمین اور سیماء بہن نے ہم سب کو ہمت، عظمت اور حوصلہ بخشا، ایسی مائیں، بہنیں، خوش قسمت قوموں کو ملتی ہیں، جو ظلم کے خلاف ڈٹے رہتے ہیں اور دوسروں کو ہی جگا دیتے ہیں۔ ایسے سخت کٹھن حالات میں ہمت اور حوصلے کے ساتھ راواں داواں اپنے منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں، شدید سردی، مشکلات، دشمن کے دھمکیوں کے باوجود اپنے منزل کو پہنچنے سے پہلے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں، اپنے پیاروں سے آخری سانس تک کا یہ عہد کرتی ہیں کہ جب تک ہم اپنے منزل مقصود تک نہیں پہنچتے، تب تک ہم منزل کی طرف اور تیزی کے ساتھ بڑھتے رہینگے۔
ایسے ماں بہنوں کو کوئی بھی اپنے منزل سے روک نہیں سکتا ہے، جو مشکلوں میں چلنا جانتی ہوں، جو بے تحاشا سردیوں میں در در کا ٹھوکر سہہ سکتی ہوں، دشمن تو اپنی ناکامی پر اپنی نظریں جھکائے ہزار بار پروپیگنڈہ چلارہا ہے، پھر بھی اپنے ناکام کوششوں سے ہر بار ناکام ہی ہوتا ہے۔
آج سیماء بہن جیسوں کی آگے بڑھنے سے ہزاروں ماں بہنوں کو ہمت و حوصلہ حاصل ہوئی ہے، جن کے دل سے دشمن کا خوف نکل گیا ہے، جو بڑے ہمت و حوصلہ کے ساتھ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے راہوں میں دربدر بھٹک رہی ہیں، آج سیماء بہن کی کوششوں نے بہترین رنگ لائی ہے، جو بھائی، باپ چار چار سالوں سے لاپتہ ہوئے تھے آج سیماء بہن جیسوں کے ہمت، حوصلے قدم بہ قدم آگے چلنے سے ان کی بازیابی ہوئی ہے، جن کی مائیں بہنیں سالوں سے اپنے پیاروں کیلئے اذیتیں سہہ رہی تھیں، وہ اب سکون کی نیند تو سو پاتی ہیں، جن کے جگر گوشے ان کے سامنے تو ہے، ایسے بہنوں کے فکر و سوچ ہزاروں بھائی باپ بہنوں کے سر فخر سے بلند کرتے ہیں۔
ماں دنیا کے ان عظیم ہستیوں میں سے ایک ہستی ہے، جو اپنے لختِ جگروں کے وہ درد دکھ محسوس کر سکتی ہے، جو کوئی بھی رشتہ محسوس نہیں کر پاتی، ماں وہ ہستی ہے، جو اپنے جگر کے گوشوں کیلئے اپنی عمر سے زیادہ عمر کی دعا کرتی ہے۔ جو اپنے ہی عمر کو اپنے ہی جگر کے گوشوں کے عمر میں لگانے کی دعا کرتی ہے، جو ہر وقت یہی دعا کرتی ہے کہ اللہ مجھے میرے لختِ جگر سے پہلے دنیا سے اٹھائے، کہیں پھر مجھے انکا درد دیکھنے کو نا ملے، لیکن ایک اور بھی ماں ہے جو میرا اور آپ کا اور آنے والے نسلوں تک کا ماں ہے، جو ہمارے ماوں کا بھی ماں، مادر وطن ہے۔ جو ہمیں بچپن سے ہی بڑے پیار و لاڈ اور فخر سے پالتا ہے۔ اس امید پر کہ میرے بیٹے مجھے ظالم سامراج سے آزاد کردینگے، میرے بیٹے مجھے خود سنبھال لینگے، اپنے دھرتی ماں کا خود مختیار بنائیں گے، میں بیٹے جنم دیتا رہونگا اور بیٹے قرباتی دیتے رہیں گے، اس دھرتی ماں کی فکر وسوچ کو ان کے ہزاروں بیٹوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھا کر ہر قسم کےمشکلات کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔.
اماں یاسمین، بہادری، ہمت و حوصلہ بخشنے کی مالک، اسی دھرتی ماں کی سوچ و فکر کو لے کر بڑے دلیرانہ انداز میں آگے بڑھ رہی ہے، اماں یاسمین اور شہید جنرل استاد اسلم بلوچ نے وطن کے دفاع کیلئے پہلے اپنے ہی لختِ جگر کا انتخاب کرکے قربان ہونے کیلئے تیار کیا، تاکہ کل دوسرے ماوں کے ساتھ نا انصافی نہ ہو، اور بڑے فخر سے اپنے ہی ہاتھوں سے بارود سے بھرے گاڑی میں بیٹھا کر رخصت کیا اور خود بیٹے کی کامیاب ہونے کے انتظار میں بیٹھے کہ وہ مقصد و مشن میں کامیاب ہو۔ ماں باپ کی بیٹے کی کامیابی پر سر فخر سے بلند ہو۔
آہ! ماں ہمارے سوچ گمان سے بھی باہر کی بات ہے۔.
جنرل اسلم کے شہید ہونے کے بعد بھی اماں یاسمین ہمت و حوصلے کے ساتھ قوم کو پیغام دیتی ہے کہ میں کل بھی آپ لوگوں کے ساتھ تھی اور آخری سانس تک بھی ساتھ رہونگی، استاد کی شہادت نے واقعی قوم کی کمر توڑ دی، مگر جنگ رکا نہیں، شہادت پانا جنگ آزادی کا حصہ ہے، قربانیوں کے بغیر آزادی ملتی نہیں ہے، آزادی ایسے ہزاروں قربانیوں کے بعد ملتی ہے۔ ہماری جنگ کمزور اور ختم ہونے کے بجائے ہماری جنگ ایک نئی شکل اختیار کررہا ہے اور تیزی کے ساتھ ہماری جنگ بڑھ رہی ہے، اور میں قوم کے نوجوانوں سے امید کرتی ہوں کے میرے بیٹے استاد کی اس “فکر، سوچ اور فلسفے کو آگے لے جا کر آخری سانس تک دشمن کے نیندیں حرام کر دینگے، دشمن پر قہر بن کر ٹوٹینگے، دشمن کے مورچوں میں گھس کر اسے نیست و نابود کر دینگے، اسے سکھا دینگے کہ استاد کے بعد ہزاروں استاد، استاد کی چنے ہوئے راہ کو اختیار کر چکے ہیں، استاد نے ہزاروں استاد بنا کر جام شہادت نوش کی ہے۔
اماں یاسمین میرے پاس وہ لفظ ہی نہیں ہے جو میں آپ کی اور سیماء بہن کہ ہمت اور حوصلے پر لکھ سکوں، بس اماں جان میں خود کو حوصلہ دے کر آج قلم اٹھا کر اپنے علم سے کچھ آپ کی اور سیماء بہن کے حق میں لکھ رہا ہوں، اماں یاسمین اور سیماء بہن میں جانتا ہوں میرے قلم کی نوک سے نکلے ہوئے الفاظ میں تیرے ہمت حوصلہ کو بیان کرنے میں کمی ضرور ہوگی۔
قوم کے ہر ایک تعلیم یافتہ نوجوان کیلئے یہ ضروری ہے کہ اپنے ایسے عظیم شخصیتوں کے نام کچھ نا کچھ ضرور لکھیں، خواہ وہ شخصیت ایک گوریلا کی حیثیت سے ہو یا انضاف مانگنے کیلئے درپہ در ٹھوکریں سہنے والوں کیلئے ہو، جس کی مثال اماں یاسمین اور سیماء بہن ہے یا اپنے مادر وطن کے نام پر ہو، ہر کسی کو اپنے علم کے مطابق کچھ نہ کچھ لکھنا ضروری ہے۔ اماں یاسمین سیما بہن ایسے عظیم ہستیوں کی ثابت قدمی کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا، اماں یاسمین سیماء بہن تو ہمت و عظمت کا پیکر ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔