افغان طالبان نے امریکا کے نمائندے زلمے خلیل زاد سے ہونے والے مذاکرات کے دوران حتمی معاہدے کی توقع ظاہر کرتے ہوئے افغانستان کو بیرونی طاقتوں کے خلاف مرکز نہ بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔
موصولہ رپورٹس کے مطابق افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ معاہدے میں یہ بات بھی شامل ہوگی کہ افغانستان دوبارہ امریکا کے خلاف حملوں کا مرکز نہیں ہوگا۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان طالبان اور امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد کے درمیان 17 سالہ افغان جنگ کے خاتمے کے لیے اہم مذاکرات جاری ہیں۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ‘اگر ہم مذاکرات کے اس دور میں حل کی جانب نہیں پہنچے تو ہم مذاکرات کا ایک اور دور کریں گے لیکن یہ ہمارا ہدف ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ فریقین کے درمیان مذاکرات دو نکتوں امریکا کی دست برداری اور حملے نہ ہونے کی گارنٹی پر اٹکے ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ افغان طالبان نے افغان حکومت کو امریکا کا بغل بچہ قرار دیتے ہوئے امریکا سے براہ راست مذاکرات کی شرط رکھی تھی جس کے بعد گذشتہ برس دوحہ میں مذاکرات شروع ہوئے تھے۔
امریکی نمائندہ زلمے خلیل زاد ایک مرتبہ پھر مذاکرات کے لیے دو روز قبل قطر پہنچے تھے اور انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ یہ امن عمل کے لیے ایک اہم لمحہ ہوسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ گذشتہ مذاکرات میں اس بات پر توجہ مرکوز رکھی تھی کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے بدلے اس بات کی یقین دہائی کرادی جائے کہ امریکا کے خلاف حملے نہیں ہوں گے لیکن اس حوالے سے واضح نہیں ہوا تھا کہ وہ اس نکتے کی یقین دہانی کے کتنے قریب پہنچے تھے۔
مذاکرات کے دوران ان کی جانب سے افغان طالبان پر کابل حکومت سے براہ راست مذاکرات کے لیے دباؤ بڑھانے کی توقع بھی ظاہر کی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ طالبان کی حکومت کو امریکا نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد اکتوبر 2001 میں ختم کردیا تھا لیکن طالبان نے گزشتہ چند برسوں میں اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے واپسی کی تھی اور افغان سیکیورٹی فورسز پر بدترین حملے کیے تھے۔
امریکا کے ساتھ طالبان کے مذاکرات میں ملا عبدالغنی برادر کو بہت اہم قرار دیا جارہا ہے جن کو گزشتہ برس اکتوبر میں رہا کیا گیا تھا۔
طالبان ترجمان نے ملا عبدالغنی برادر کی موجودگی کو بہت اہم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ اس بات کا عکس ہے کہ ہم مذاکرات کو کس قدر اہمیت دے رہے ہیں اور ہماری کتنی بڑی توقعات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت سے مذاکرات کا انکار اندرونی معاملہ تھا تاہم انہوں نے کوئی وضاحت نہیں کی۔
افغان طالبان نے امریکا کے علاوہ رواں ماہ کے اوائل میں روس کے دارالحکومت ماسکو میں بھی افغان سیاست دانوں، حزب اختلاف کی اہم شخصیات اور قبائلی رہنماؤں سمیت سابق صدر حامد کرزئی سے مذاکرات کیے تھے۔
حامد کرزئی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں جس کو ابتدائی طور پر افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے طور پر شامل کیا جا سکتا ہے۔